تشریح:
(1) وہ شخص نومسلم تھا، فوراً قرآن مجید حفظ نہیں کرسکتا تھا، اس میں تاخیر ہوسکتی تھی لیکن نماز کو مؤخر نہیں کیا جاسکتا، اس لیے وقتی طور پر اسے یہ جملے سکھلا دیے گئے جو ہر خاص و عام جانتا ہے تاکہ جب تک اسے قرآن مجید حفظ نہیں ہوجاتا، اس وقت تک وہ ان سے کام چلائے۔ یہ نہیں کہ مستقلاً انھی سے نماز پڑھے۔
(2) سابقہ احادیث سے معلوم ہوا کہ کم از کم قراءت سورۂ فاتحہ واجب ہے، لہٰذا جو کوئی ازحد عاجز ہو اور کسی بھی معقول عذر کی بنا پر سورۂ فاتحہ اور قرآن مجید پڑھنے یا یاد رکھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اسے مذکورہ ذکر یا اس طرح کے دوسرے ماثور اذکار سے اپنی نماز مکمل کرنی چاہیے نہ کہ نماز یا قرآن یاد نہ ہونے کا عذر بنا کر نماز ہی چھوڑ دے۔ (عذر گناہ بدترازگناہ) یا پھر عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں نماز کے اذکار اور قرآن مجید پڑھے، اس سے بھی نماز نہیں ہوگی۔ غیرعربی زبان میں نماز یا اذان یا کلمۂ توحید ورسالت وغیرہ مسلمانوں میں وحدت ختم کردیں گے۔ قرآن مجید بھی عربی ہی میں پڑھا جائے گا۔ ترجمۂ قرآن، بالاتفاق قرآن نہیں کہلاتا کیونکہ قرآن کریم کے الفاظ معجز ہیں اور ترجمے میں اعجاز قرآنی ختم ہوجاتا ہے، لہٰذا نماز میں قرآن کریم کا ترجمہ کفایت نہیں کرے گا، نہ اس سے نماز ہی درست ہوگی۔ عربی زبان مسلمانوں کی وحدت کی ضامن اور قرآن کریم اس کے تحفظ کا ذریعہ ہے۔ واللہ أعلم۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث حسن، وصححه الدارقطني، وصحح إسناده الحاكم على
شرط البخاري، ووافقه الذهبي، وقال المنذري: " إسناده جيد ") .
إسناده: حدثنا عثمان بن أبي شيبة: ثنا وكيع بن الجرل: ثنا سفيان الثوري
عن أبي خالد الدالاني عن إبراهيم السكْسَكِيِّ عن عبد الله بن أبي أوفى.
قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله ثقات رجال البخاري؛ غير أبي خالد
الدالاني- واسمه يزيد بن عبد الرحمن-، وهو ضعيف؛ قال في "التقريب ":
" صدوق يخطئ كثيراً، وكان يدلس ".
وإبراهيم السكسكي- وهو ابن عبد الرحمن-، وإن كان من رجال البخاري؛
ففيه ضعف أيضا؛ قال الحافظ:
" صدوق، ضعيف الحفظ ".
لكن له متابع يرتقي الحديث به إلى درجة الحسن، ذكره الحافظ في
"التلخيص "، ثم ذكرته في "الإرواء" (رقم 303) .
والحديث أخرجه الدارقطني (118) ، والبيهقي (2/381) ، وأحمد
(4/353) ، وابن خزيمة (544) من طرق أخرى عن سفيان... به.
وأخرجه الدارقطني من طريقين آخرين عن وكيع... به.
وأخرجه النسائي (1/146) ، وابن حبان (473) ، والدارقطني (119) ،
والحاكم (1/241) ، والبيهقي (2/381) ، وأحمد (4/356) من طريق مسعر عن
إبراهيم السكسكي... به نحوه. وقال الحاكم:
" صحيح على شرط البخاري "! ووافقه الذهبي!
وأخرجه الطيالسي في "مسنده " (402- ترتيبه) : حدثنا المسعودي عن إبراهيم
السكسكي... به.
ومن هذا الوجه: أخرجه البيهقي، وأحمد (4/382) . وقال المنذري في
"الترغيب " (2/247) - بعد أن عزاه لابن أبي الدنيا والبيهقي فقط!-:
" وإسناده جيد "! وقال ابن القيم في "التهذيب " (1/ 395/795) :
" وصحح الدارقطني هذا الحديث ".
قلت: ولم أره في "سنن الدارقطني "! فالظاهر أنه في غيره من كتبه.