تشریح:
(1) سند میں حضرت شعبہ نے اپنے استاد کا نام مالک بن عرفطہ ذکر کیا ہے، لیکن یہ ان کی غلطی ہے۔ محدثین کا اتفاق ہے کہ ان کا نام خالد بن علقمہ ہے۔ شعبہ اگرچہ اعلیٰ پائے کے محدث ہیں مگر غلطی ہر ایک سے ممکن ہے۔ سابقہ دو احادیث میں زائدہ اور ابو عوانہ نے صحیح نام بیان کیا ہے، لہٰذا امام صاحب نے وضاحت فرما دی۔
(2) [بِكَفٍّ وَاحِدٍ] اس کا ایک ترجمہ تو ’’ایک ہتھیلی سے‘‘ ہے، یعنی کلی اور استنشاق دونوں داہنے ہاتھ سے کیے۔ دوسرا ترجمہ ہے ایک ہی چلو سے، یعنی ایک دفعہ پانی لے کر کچھ حصہ منہ میں اور کچھ حصہ ناک میں ڈالا، اور یہی درست ہے۔ اسے وصل کہتے ہیں۔ امام ترمذی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ بعض علماء نے الگ الگ پانی لینا بہتر قرار دیا ہے اور بعض نے ایک ہی چلو سے دونوں عمل کرنے کو بہتر قرار دیا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اس کی بابت یوں فرماتے ہیں کہ اگر دونوں کام ایک ہی چلو سے کر لیے جائیں تو جائز ہے لیکن ہمیں الگ الگ پانی لینا زیادہ پسند ہے۔ دیکھیے: (جامع الترمذی، الطھارۃ، حدیث: ۲۸) تاہم حدیث کی رو سے زیادہ بہتر یہی ہے کہ ایک ہی چلو سے کلی کی جائے اور ناک میں پانی ڈالا جائے کیونکہ ایک ہی چلو سے کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے والی روایات سند کے لحاظ سے زیادہ قوی اور مستند ہیں۔ واللہ أعلم۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح أيضا) .
إسناده: حدثنا محمد بن المثنى: حدثني محمد بن جعفر: حدثني شعبة.
وهذا إسناد صحيح كسابقه؛ لكن وهم فيه شعبة فقال: مالك بن عرفطة! وإنما
هو خالد بن علقمة، كما في رواية زائدة وأبي عوانة المتقدمتين، وكما في رواية كل
من رواه عنه غيرهما ممن سبقت الإشارة إليه؛ وقد اتفق الحفاط- كأحمد والبخاري
والترمذي وابن حبان وأبي حاتم وغيرهم- على توهيمه في ذلك؛ وحاول بعض
الأفاضل المعاصرين تخطئتهم؛ ولكنه لم يأت بحجة قوية في ذلك فيُعْتَمدَ عليها !
وفي "عون المعبود" ما نصه:
" واعلم أنه ذكر الحافط المزي في "الأطراف " ههنا [ أي: في آخر الحديث ]
عبارات من قول أبي داود، ليست موجودة في النسخ الحاضرة عندي؛ لكن رأينا
إثباتها لتكميل الفائدة، وهي هذه:
قال أبو داود: " ومالك بكلرفطة؛ إنما هو خالد/بن علقمة/، أخطأ فيه شعبة ".
قال أبو داود: " قالد أبو عوانة يوماً: حدتنا مالك بحرفطة عن عبد خير،
فقال له عمرو الأغضف: رحمك الله اْبا عوانة! هذا خالد بن علقمة؛ ولكن شعبة
مخطئ فيه، فقال أبو عوانة: هو في كتابي: خالد بن علقمة؛ ولكن قال شعبة:
هو مالك بن عرفطة ".
قال أبو داود: " حدثا عمرو بن عون قال: حدثنا أبو عوانة عن مالك بن
عرفطة".
قال أبو داود: " وسماعه قديم ".
قال أبو داود: " حدثا أبو كامل قال: حدثا أبو عوانة عن خالد بن علقمة؛
وسماعه متأخر، كأنه بعد ذلك رجع إلى الصواب. انتهى ".
قال المزي في آخر الكلام: " من قول أبي داود: (مالك بن عرفطة) إلى قول:
(رجع إلى الصواب) : في رواية أبي الحسن بن العبد، ولم يذكره أبو القاسم.
انتهى".
قلت: ورواية أبي الحسن بن العبد هذه؛ ذكرها الحافظ أيضا في ترجمة خالد
ابن علقمة من "التهذيب ".
والحديث أخرجه النسائي (1/27) ، والطيالسي (رقم 149) ، وعنه البيهقي
(1/50- 51) ، وأحمد (2/رقم989 و 1178) من طرق عن شعبة... به.
وللحديث طرق أخرى عن عبد خير، انظرها في "المسند" (رقم 737 و 876
و 910 و 918 و 1263) ، وفي "زيادات ابنه عبد الله " عليه (رقم 1007 و 1008
و1013 و 1014- 1016 و 1047) ، وسيأً تي بعضها في الكتاب (رقم 153) .