تشریح:
(1) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ ساتھ پڑھنا اس خطرے کے پیش نظر تھا کہ مجھے کچھ بھول نہ جائے۔ جب اللہ تعالیٰ نے حفاظت کا ذمہ لے لیا تو آپ نے ساتھ ساتھ پڑھنا چھوڑ دیا۔
(2) حدیث میں ہونٹ ہلانے کا ذکر ہے جب کہ قرآن مجید میں زبان کی حرکت کا۔ دراصل زبان کی حرکت کا علم ہونٹوں کے ہلنے سے ہوتا ہے، نیز مراد پڑھنا ہے اور پڑھتے وقت ہونٹ بھی ہلتے ہیں اور زبان بھی۔ مختصر صحیح البخاری (اردو) مطبوعہ دارالسلام میں اس حدیث کے فوائد کچھ یوں ہیں: ”اس حدیث میں قرآن حکیم کے متعلق تین مراحل کا ذکر کیا گیا ہے: پہلا مرحلہ آپ کے سینۂ مبارک میں محفوظ طریقے سے اتارنا ہے، دوسرا مرحلہ قلب مبارک میں جمع شدہ قرآن کو زبان کے ذریعے سے پڑھنے کی توفیق دینا اور آخری مرحلہ قرآن کے مجملات کی تشریح اور مشکلات کی توضیح ہے جو احادیث (صحیحہ) کی شکل میں موجود ہے۔ ان تمام مراحل کی ذمے داری خود اللہ تعالیٰ نے اٹھائی ہے۔“ (عون الباري: ۱:۵۸) یہ یاد رہے کہ بخاری شریف کی حدیث میں نسائی شریف کی حدیث کی نسبت کچھ الفاظ زیادہ ہیں، لہٰذا اس مناسبت سے یہ تشریح کی گئی ہے۔ واللہ أعلم۔
(3) نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نزول وحی کے وقت کبھی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور یہ وحی کے بوجھ کی وجہ سے تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلا ثَقِيلا﴾ (المزمل: ۵:۷۳) ”یقینا ہم جلد آپ پر بھاری بات ڈالیں گے۔“
(3) اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ضمانت خود اٹھائی تھی کہ انھیں قرآن بھولے گا نہیں اور اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ غور سے سنتے۔ جب جبرئیل علیہ السلام اپنی قراءت مکمل کرلیتے اور واپس چلے جاتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو اسی طرح پڑھ کر سناتے جس طرح جبرئیل نے آپ کو پڑھایا ہوتا تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسَى﴾ (الاعلیٰ: ۶:۸۷) ”ہم جلد آپ کو پڑھائیں گے، پھر آپ بھولیں گے نہیں۔“
(5) اس حدیث مبارکہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کوئی بھی قرآن کریم کو حفظ کرنا چاہے، وہ اللہ کی مدد اور اس کے فضل کے بغیر حفظ نہیں کرسکتا۔