باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان: (ولا تجھر بصلاتک ولا تخافت بھا) ’’قرآن مجید پڑھتے ہوئے آواز نہ زیادہ اونچی کریں اور نہ بالکل پست‘‘ کی تفسیر
)
Sunan-nasai:
The Book of the Commencement of the Prayer
(Chapter: The saying of Allah, the Mighty and Sublime: "And offer your salah (prayer) neither alou)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1011.
حضرت ابن عباس ؓ نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان:(وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا) کی تفسیر میں فرمایا: یہ آیت اس وقت اتری جب آپ مکہ مکرمہ میں چھپ کر رہتے تھے۔آپ جب اپنے صحابہ کو نماز پڑھاتےتوقرآن مجید بلند آوازسے پڑھتے۔ مشرکین جب آپ کی آوازسنتے تو قرآن پاک، اس کے اتارنے والے اور اس کے لانے والے (سب) کو گالیاں دیتے۔ تو اللہ عزوجل نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا: ”اتنی بلند آواز سے نہ پڑھا کریں کہ مشرکین اسے سن کر قرآن کو گالیاں دیں اور اتنا آہستہ بھی نہ پڑھیں کہ آپ کے صحابہ بھی نہ سن سکیں بلکہ ان کی درمیانی راہ اختیار کریں۔“
تشریح:
(1) مشرکین سے قطع نظر نماز کے اندر امام درمیانی آواز اختیار کرے۔ اسی طرح نفل نماز پڑھنے والا اتنی آواز رکھے جس سے دوسرو ں کی نماز یا آرام میں خلل بھی نہ پڑے اور اس کی آواز بھی سنائی دے۔ ویسے بھی منہ میں پڑھنے سے وہ تاثر پیدا نہیں ہوتا جو آواز کے ساتھ پڑھنے سے ہوتا ہے۔ واللہ أعلم۔ (2) ابتدائے اسلام میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو دعوت دیتے تو مشرکین آپ کو تکلیفیں دیتے تھے۔ آپ اور آپ کے صحابہ چھپ کر نماز پڑھتے اور مسلسل دعوت کا کام کرتے رہے، اسی طرح ہر داعی کو بچاؤ کے اسباب اختیار کرنے چاہئیں اور مخالفین کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں کو برداشت کرے۔ آخر کار کامیابی دین اسلام ہی کی ہے، نیز اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دعوت دینے والا ہر اس کام اور بات سے دور رہے جس سے لوگوں کو اللہ، اس کے رسول اور دین اسلام پر طعن و تشنیع کرنے کا موقع ملے۔ واللہ أعلم۔
حضرت ابن عباس ؓ نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان:(وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا) کی تفسیر میں فرمایا: یہ آیت اس وقت اتری جب آپ مکہ مکرمہ میں چھپ کر رہتے تھے۔آپ جب اپنے صحابہ کو نماز پڑھاتےتوقرآن مجید بلند آوازسے پڑھتے۔ مشرکین جب آپ کی آوازسنتے تو قرآن پاک، اس کے اتارنے والے اور اس کے لانے والے (سب) کو گالیاں دیتے۔ تو اللہ عزوجل نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا: ”اتنی بلند آواز سے نہ پڑھا کریں کہ مشرکین اسے سن کر قرآن کو گالیاں دیں اور اتنا آہستہ بھی نہ پڑھیں کہ آپ کے صحابہ بھی نہ سن سکیں بلکہ ان کی درمیانی راہ اختیار کریں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) مشرکین سے قطع نظر نماز کے اندر امام درمیانی آواز اختیار کرے۔ اسی طرح نفل نماز پڑھنے والا اتنی آواز رکھے جس سے دوسرو ں کی نماز یا آرام میں خلل بھی نہ پڑے اور اس کی آواز بھی سنائی دے۔ ویسے بھی منہ میں پڑھنے سے وہ تاثر پیدا نہیں ہوتا جو آواز کے ساتھ پڑھنے سے ہوتا ہے۔ واللہ أعلم۔ (2) ابتدائے اسلام میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو دعوت دیتے تو مشرکین آپ کو تکلیفیں دیتے تھے۔ آپ اور آپ کے صحابہ چھپ کر نماز پڑھتے اور مسلسل دعوت کا کام کرتے رہے، اسی طرح ہر داعی کو بچاؤ کے اسباب اختیار کرنے چاہئیں اور مخالفین کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں کو برداشت کرے۔ آخر کار کامیابی دین اسلام ہی کی ہے، نیز اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دعوت دینے والا ہر اس کام اور بات سے دور رہے جس سے لوگوں کو اللہ، اس کے رسول اور دین اسلام پر طعن و تشنیع کرنے کا موقع ملے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ آیت کریمہ: «وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا» کے سلسلے میں کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت رسول اللہ ﷺ مکہ میں چھپے رہتے تھے، جب رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام ( ؓ ) کو نماز پڑھاتے تو اپنی آواز بلند کرتے، (ابن منیع کی روایت میں ہے: قرآن زور سے پڑھتے) جب مشرکین آپ کی آواز سنتے تو قرآن کواور جس نے اسے نازل کیا ہے اسے، اور جو لے کر آیا ہے اسے سب کو برا بھلا کہتے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ سے کہا: اے محمد! اپنی نماز یعنی اپنی قرأت کو بلند نہ کریں کہ مشرکین سنیں تو قرآن کو برا بھلا کہیں، اور نہ اسے اتنی پست آواز میں پڑھیں کہ آپ کے ساتھی سن ہی نہ سکیں، بلکہ ان دونوں کے بیچ کا راستہ اختیار کریں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn 'Abbas (RA) said: Concerning the saying of Allah, the Mighty and Sublime: "And offer your salah (prayer) neither aloud nor in a low voice"- It was revealed when the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) was still (preaching) in secret in Makkah. When he led his companions in prayer, he would raise his voice" -(One of the narrators) Ibn Mani' said: He would recite the Qur'an out loud"- "And when the idolators heard his voice they would insult the Qur'an, and the One Who revealed it, and the one who brought it. So Allah, the Mighty and Sublime, said to His Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم): And offer your salah (prayer) neither aloud that is, such that the idolators can hear your recitation and insult the Quran; nor in a low voice, so that your companions cannot hear; but follow a way between."