کتاب: رات کے قیام اور دن کی نفلی نماز کے متعلق احکام و مسائل
(
باب: تین وتر کیسے پڑھے جائیں
)
Sunan-nasai:
The Book of Qiyam Al-Lail (The Night Prayer) and Voluntary Prayers During the Day
(Chapter: How to pray witr with three rak'ahs)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1697.
حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے منقول ہے، انھوں نے ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا کہ رمضان المبارک میں رسول اللہ ﷺ کی (رات کی) نماز کیسے ہوتی تھی؟ تو انھوں نے فرمایا: آپ رمضان یا غیررمضان میں (عموماً) گیارہ رکعات سے زائد نہیں پڑھتے تھے۔ چار رکعات پڑھتے ایسی خوب صورت اور طویل کہ کچھ نہ پوچھ، پھر چار پڑھتے ایسی خوب صورت اور طویل کہ کچھ نہ پوچھ، پھر تین رکعات پڑھتے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ وتر (تین رکعات) پڑھنے سے پہلے سوجاتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”اے عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں، دل نہیں سوتا۔“
تشریح:
(1) ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعات ایک سلام سے پڑھتے تھے، پھر چار ایک سلام سے، پھر تین ایک سلام سے۔ یہ طریقہ بھی درست ہے، اسی لیے مصنف رحمہ اللہ نے تین وتر کا باب باندھا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز تہجد کے متعلق مختلف طریقے منقول ہیں۔ صحیح احادیث کی روشنی میں ان میں سے کوئی سا طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔ افضل یہ ہے کہ عمل میں تنوع ہو، کبھی یہ، کبھی وہ، اصل اتباع سنت یہی ہے۔ عموماً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز تہجد گیارہ رکعات، دودوکرکے اور آخر میں وتر ایک رکعت کی صورت میں منقول ہے، اور یہ طریقہ افضل ہے۔ لیکن کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نو رکعات اکٹھی اور بعد میں دورکعات، کبھی سات اور کبھی تیرہ رکعات، آٹھ دو دو کرکے اور پانچ وتر اکٹھے بھی پڑھے ہیں، لہٰذا دودورکعات والی عام روایات کی روشنی میں ان میں تاویل کی گنجائش نہیں۔ اسی طرح چار چار رکعات نماز تہجد میں بھی کوئی حرج نہیں، نہ یہ ممنوع ہیں بلکہ مذکورہ بالاحدیث اس کی مشروعیت کے لیے کافی ہے۔ بعض کا یہ کہنا کہ چار چار سے اکٹھی چار چار مراد نہیں بلکہ دیگر احادیث کی روشنی میں دودورکعات ہی مراد ہیں لیکن یہ موقف محل نظر ہے کیونکہ جب احادیث میں ایک ہی نہیں بلکہ کچھ اور طریقے بھی منقول ہیں تو انہیں تسلیم کرنے سے اس طریقے کو بھی ماننے یا عمل میں لانے میں کون سی چیز مانع ہے؟ نمازتہجد کے متعدد طریقوں کے لیے دیکھیے: (صلاة التراویح، للألباني، ص:۸۶۔۹۳) (2) ”زائد نہیں پڑھتے تھے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول گیارہ رکعات ہی تھا۔ گیارہ سے کم بھی پڑھی جاسکتی ہیں کیونکہ کم پڑھنا بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ (3) ”دل نہیں سوتا“ اور یہ تمام انبیاء و رسل علیہم السلام کی خصوصیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے خواب سچے اور وحی ہوتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل حالت نیند میں بھی چونکہ بیدار ہوتا تھا، اس لیے آپ کو حدث (بے وضو ہونا) وغیرہ کا پتا چل جاتا تھا۔ گویا نیند صرف خروج ریح کے خطرے کی بنا پر ناقض وضو ہے۔
حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے منقول ہے، انھوں نے ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا کہ رمضان المبارک میں رسول اللہ ﷺ کی (رات کی) نماز کیسے ہوتی تھی؟ تو انھوں نے فرمایا: آپ رمضان یا غیررمضان میں (عموماً) گیارہ رکعات سے زائد نہیں پڑھتے تھے۔ چار رکعات پڑھتے ایسی خوب صورت اور طویل کہ کچھ نہ پوچھ، پھر چار پڑھتے ایسی خوب صورت اور طویل کہ کچھ نہ پوچھ، پھر تین رکعات پڑھتے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ وتر (تین رکعات) پڑھنے سے پہلے سوجاتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”اے عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں، دل نہیں سوتا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعات ایک سلام سے پڑھتے تھے، پھر چار ایک سلام سے، پھر تین ایک سلام سے۔ یہ طریقہ بھی درست ہے، اسی لیے مصنف رحمہ اللہ نے تین وتر کا باب باندھا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز تہجد کے متعلق مختلف طریقے منقول ہیں۔ صحیح احادیث کی روشنی میں ان میں سے کوئی سا طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔ افضل یہ ہے کہ عمل میں تنوع ہو، کبھی یہ، کبھی وہ، اصل اتباع سنت یہی ہے۔ عموماً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز تہجد گیارہ رکعات، دودوکرکے اور آخر میں وتر ایک رکعت کی صورت میں منقول ہے، اور یہ طریقہ افضل ہے۔ لیکن کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نو رکعات اکٹھی اور بعد میں دورکعات، کبھی سات اور کبھی تیرہ رکعات، آٹھ دو دو کرکے اور پانچ وتر اکٹھے بھی پڑھے ہیں، لہٰذا دودورکعات والی عام روایات کی روشنی میں ان میں تاویل کی گنجائش نہیں۔ اسی طرح چار چار رکعات نماز تہجد میں بھی کوئی حرج نہیں، نہ یہ ممنوع ہیں بلکہ مذکورہ بالاحدیث اس کی مشروعیت کے لیے کافی ہے۔ بعض کا یہ کہنا کہ چار چار سے اکٹھی چار چار مراد نہیں بلکہ دیگر احادیث کی روشنی میں دودورکعات ہی مراد ہیں لیکن یہ موقف محل نظر ہے کیونکہ جب احادیث میں ایک ہی نہیں بلکہ کچھ اور طریقے بھی منقول ہیں تو انہیں تسلیم کرنے سے اس طریقے کو بھی ماننے یا عمل میں لانے میں کون سی چیز مانع ہے؟ نمازتہجد کے متعدد طریقوں کے لیے دیکھیے: (صلاة التراویح، للألباني، ص:۸۶۔۹۳) (2) ”زائد نہیں پڑھتے تھے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول گیارہ رکعات ہی تھا۔ گیارہ سے کم بھی پڑھی جاسکتی ہیں کیونکہ کم پڑھنا بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ (3) ”دل نہیں سوتا“ اور یہ تمام انبیاء و رسل علیہم السلام کی خصوصیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے خواب سچے اور وحی ہوتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل حالت نیند میں بھی چونکہ بیدار ہوتا تھا، اس لیے آپ کو حدث (بے وضو ہونا) وغیرہ کا پتا چل جاتا تھا۔ گویا نیند صرف خروج ریح کے خطرے کی بنا پر ناقض وضو ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ ؓ سے پوچھا: رمضان میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کیسی ہوتی تھی؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ رمضان میں اور غیر رمضان میں کسی میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے، آپ چار رکعت پڑھتے تو ان کا حسن اور ان کی طوالت نہ پوچھو۱؎ ، پھر چار رکعت پڑھتے تو تم ان کا (بھی) حسن اور ان کی طوالت نہ پوچھو، پھر تین رکعت پڑھتے۔ عائشہ ؓ کہتی ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سوتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں، لیکن میرا دل نہیں سوتا۔“ ۲؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یہاں نہی مقصود نہیں بلکہ مقصود نماز کی تعریف کرنا ہے۔ ۲؎ : یعنی میرا دل اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتا ہے، اس وجہ سے سونے سے مجھے کوئی ضرر نہیں پہنچتا، میرا وضو اس سے نہیں ٹوٹتا، واضح رہے کہ یہ بات آپ کی خصوصیات میں سے تھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Salamah bin Abdur-Rahman that : He asked Aishah, the Mother of the Believers, about how the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) used to pray in Ramadan. She said: "The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) did not pray more than eleven rak'ahs during Ramadan or at any other time. He would pray four, and do not ask how beautiful or how long they were. Then he would pray four, and do not ask how beautiful or how long they were. Then he would pray three." Aishah said: "I said: 'O Messenger of Allah, do you sleep before you pray witr?' He said: 'O Aishah, my eyes sleep but my heart does not.'"