کتاب: کون سی چیزیں غسل واجب کرتی ہیں اور کون سی نہیں؟
(
باب: جب کافر مسلمان ہو تو غسل کرے
)
Sunan-nasai:
Mention When Ghusal (A Purifying Bath) Is Obligatory And When It Is Not
(Chapter: The Ghusl Of The Disbeliever When He Accepts Islam)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
188.
حضرت قیس بن عاصم سے منقول ہے کہ وہ مسلمان ہوئے تو نبی ﷺ نے انھیں حکم دیا کہ پانی اور بیری کے پتوں سے غسل کریں۔
تشریح:
(1) یہ غسل جمہور اہل علم کے نزدیک مستحب ہے تاکہ اسے احساس ہو کہ میں اندرونی اور بیرونی طور پر دونوں طرح کی نجاست اور میل کچیل سے پاک صاف ہوگیا ہوں بلکہ بعض روایات کے مطابق حجامت اور ختنے کرانے کا بھی حکم ہے، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت کلیب رضی اللہ عنہ کو، جب وہ مسلمان ہوئے، حکم فرمایا: [ألق عنک شعر الکفر] ’’اپنے سے کفر کے بال اتار دو۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور صحابی کو حکم فرمایا: [ألق عنک شعر الکفر و اختتن]’’اپنے سے کفر کے بال زائل کرو (حجامت کراؤ) اور ختنہ کراؤ۔‘‘(سنن أبي داود، الطھارۃ، حدیث: ۳۸۳) شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔ دیکھیے: (صحیح سنن أبي داود (مفصل) للألباني، رقم: ۳۸۳) اور کپڑے بھی تبدیل کروائے جائیں تاکہ اسے مکمل طور پر تبدیلی کا احساس ہو اوروہ اپنے آپ کو کفر کی آلودگی سے پاک محسوس کرے۔ میل کچیل بھی دور ہو جائے گی۔ (2) بیری کے پتے میل کچیل دور کرنے کے لیے ہی ہیں۔ آج کل صابن یہ کام دے سکتا ہے۔ (3) امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک یہ غسل واجب ہے، اس لیے کہ آپ نے اس کا حکم فرمایا اور حکم وجوب کا تقاضا کرتا ہے اور کافر عام طور پر غسل جنابت نہیں کرتے، کریں بھی تو صحیح نہیں کرتے، لہٰذا وہ جنبی ہی رہتے ہیں، اس لیے پاک ہونے کے لیے غسل واجب ہے۔ حدیث کے ظاہر الفاظ بھی ان کے مؤید ہیں، اس لیے وجوب غسل کا موقف ہی قوی ہے۔ واللہ أعلم۔
حضرت قیس بن عاصم سے منقول ہے کہ وہ مسلمان ہوئے تو نبی ﷺ نے انھیں حکم دیا کہ پانی اور بیری کے پتوں سے غسل کریں۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ غسل جمہور اہل علم کے نزدیک مستحب ہے تاکہ اسے احساس ہو کہ میں اندرونی اور بیرونی طور پر دونوں طرح کی نجاست اور میل کچیل سے پاک صاف ہوگیا ہوں بلکہ بعض روایات کے مطابق حجامت اور ختنے کرانے کا بھی حکم ہے، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت کلیب رضی اللہ عنہ کو، جب وہ مسلمان ہوئے، حکم فرمایا: [ألق عنک شعر الکفر] ’’اپنے سے کفر کے بال اتار دو۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور صحابی کو حکم فرمایا: [ألق عنک شعر الکفر و اختتن]’’اپنے سے کفر کے بال زائل کرو (حجامت کراؤ) اور ختنہ کراؤ۔‘‘(سنن أبي داود، الطھارۃ، حدیث: ۳۸۳) شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔ دیکھیے: (صحیح سنن أبي داود (مفصل) للألباني، رقم: ۳۸۳) اور کپڑے بھی تبدیل کروائے جائیں تاکہ اسے مکمل طور پر تبدیلی کا احساس ہو اوروہ اپنے آپ کو کفر کی آلودگی سے پاک محسوس کرے۔ میل کچیل بھی دور ہو جائے گی۔ (2) بیری کے پتے میل کچیل دور کرنے کے لیے ہی ہیں۔ آج کل صابن یہ کام دے سکتا ہے۔ (3) امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک یہ غسل واجب ہے، اس لیے کہ آپ نے اس کا حکم فرمایا اور حکم وجوب کا تقاضا کرتا ہے اور کافر عام طور پر غسل جنابت نہیں کرتے، کریں بھی تو صحیح نہیں کرتے، لہٰذا وہ جنبی ہی رہتے ہیں، اس لیے پاک ہونے کے لیے غسل واجب ہے۔ حدیث کے ظاہر الفاظ بھی ان کے مؤید ہیں، اس لیے وجوب غسل کا موقف ہی قوی ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
قیس بن عاصم ؓ سے روایت ہے کہ وہ اسلام لائے تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں پانی اور بیری کے پتوں سے غسل کرنے کا حکم دیا۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یہ غسل کفر کی گندگی کے ازالہ اور نجاست کے احتمال کے دفعیہ کے لیے ہے، اکثر علماء کے نزدیک یہ حکم استحبابی ہے اور بعض کے نزدیک وجوبی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Qais bin ‘Asim that he accepted Islam, and the Prophet (ﷺ) commanded him to perform Ghusl with water and lotus leaves. (Sahih)