باب: اس روایت میں یحیٰ بن ابی کثیراورنضر بن شیبان کے اختلاف کا ذکر
)
Sunan-nasai:
The Book of Fasting
(Chapter: Mentioning the Differences in the Reports from Yahya bin Abi Kathir and An-Nadr bin Shaiban)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2210.
حضرت نضر بن شیبان نے کہا: میں نے حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے کہا: ”مجھے کوئی ایسی حدیث بیان کیجئے جو آپ نے اپنے والد محترم سے سنی ہو اور آپ کے باپ کے رسول اللہﷺ سے رمضان المبارک کے بارے میں بلا واسطہ سنی ہو۔ انہوں نے کہا: ہاں مجھے والد محترم نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تم پر رمضان المبارک کے روزے رکھنا فرض کیا ہے اور میں نے تمہارے لیے اس (کی راتوں) کا قیام مسنون کیا ہے، لہٰذا جو شخص ایمان رکھتے ہوئے اور ثواب کی نیت سے اس ماہ مقدس میں صیام وقیام کرے گا، وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جائے گا جس طرح اسے اس کی ماں نے گناہوں سے پاک جنا تھا۔“
تشریح:
(1) مذکورہ تینوں روایات (۲۲۱۰-۲۲۱۲) ضعیف ہیں، اس لیے کہ رمضان کے روزوں اور قیام کی فضیلت تو صحیح روایات سے ثابت ہے لیکن آخری حصہ ”پاک جننے والا“ صحیح نہیں ہے۔ (2) رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت تو متفقہ مسئلہ ہے، البتہ راتوں کا قیام نفل ہے، لیکن یہ نفل موکد ہیں۔ چونکہ یہ نوافل رمضان المبارک کی خصوصیت ہیں، لہٰذا انہیں ترک نہیں کرنا چاہیے کیونکہ امتیازات کی پابندی مؤکد ہوتی ہے، البتہ آپ کے دور میں رمضان کے نفلوں میں فرضیت کے ڈر سے مستقل جماعت سے اجتناب کیا گیا، صرف تین دن آپ نے جماعت کروائی ویسے لوگ ٹولیوں کی صورت میں آپ کے دور میں بھی پڑھا کرتے تھے۔ جب فرضیت کا خطرہ نہ رہا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باقاعدہ جماعت کا دوبارہ آغاز فرما دیا، لہٰذا اب یہی سنت ہے کیونکہ خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرنا بھی ضروری ہے، نیز اس پر صحابہ اور مابعد ادوار کا اجماع ہے، لہٰذا کسی مسجد کو تراویح کی جماعت سے محروم نہیں رکھنا چاہیے، البتہ اگر کوئی حافظ قاری جماعت سے الگ پڑھنا چاہے تو وہ الگ بھی پڑھ سکتا ہے۔ عشاء کے فوراً بعد پڑھے یا تہجد کے وقت۔ ہاں، جماعت عشاء کے بعد ہی ہوگی۔ مسنون نماز تراویح گیارہ رکعات ہے کیونکہ جن دنوں آپ نے جماعت کروائی تھی، گیارہ رکعت ہی پڑھائی تھیں، نیز رمضان اور غیر رمضان آپ علیہ السلام اتنی نماز ہی پڑھتے تھے۔ نبی اکرمﷺ یا کسی صحابی سے نماز تراویح کسی صحیح حدیث یا اثر سے گیارہ رکعات سے زائد ثابت نہیں، اس لیے اسی پر اکتفاء مسنون ومشروع ہے۔ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار کی روشنی میں گیارہ سے زائد نوافل (نماز تراویح) کا دعویٰ کیا جاتا ہے، وہ سب ضعیف اور محدثین کے ہاں ناقابل اعتبار ہیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (صلاۃ التراویح للالبانی)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2211
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2209
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2212
تمہید کتاب
الصيام کے لغوی معنی ہیں اَلإمساك کہا جاتا ہے[فلان صام عن الكلام] فلاں شخص گفتگو سے رک گیا ہے شرعی طور پر اس کے معنی ہیں طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے ‘پینے اور جماع سے شرعی طریقے کے مطابق رک جانا ‘نیز لغویات بے ہودہ گوئی اور مکروہ حرام کلام سے رک جانا بھی اس میں شامل ہے ۔
حضرت نضر بن شیبان نے کہا: میں نے حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے کہا: ”مجھے کوئی ایسی حدیث بیان کیجئے جو آپ نے اپنے والد محترم سے سنی ہو اور آپ کے باپ کے رسول اللہﷺ سے رمضان المبارک کے بارے میں بلا واسطہ سنی ہو۔ انہوں نے کہا: ہاں مجھے والد محترم نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تم پر رمضان المبارک کے روزے رکھنا فرض کیا ہے اور میں نے تمہارے لیے اس (کی راتوں) کا قیام مسنون کیا ہے، لہٰذا جو شخص ایمان رکھتے ہوئے اور ثواب کی نیت سے اس ماہ مقدس میں صیام وقیام کرے گا، وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جائے گا جس طرح اسے اس کی ماں نے گناہوں سے پاک جنا تھا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) مذکورہ تینوں روایات (۲۲۱۰-۲۲۱۲) ضعیف ہیں، اس لیے کہ رمضان کے روزوں اور قیام کی فضیلت تو صحیح روایات سے ثابت ہے لیکن آخری حصہ ”پاک جننے والا“ صحیح نہیں ہے۔ (2) رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت تو متفقہ مسئلہ ہے، البتہ راتوں کا قیام نفل ہے، لیکن یہ نفل موکد ہیں۔ چونکہ یہ نوافل رمضان المبارک کی خصوصیت ہیں، لہٰذا انہیں ترک نہیں کرنا چاہیے کیونکہ امتیازات کی پابندی مؤکد ہوتی ہے، البتہ آپ کے دور میں رمضان کے نفلوں میں فرضیت کے ڈر سے مستقل جماعت سے اجتناب کیا گیا، صرف تین دن آپ نے جماعت کروائی ویسے لوگ ٹولیوں کی صورت میں آپ کے دور میں بھی پڑھا کرتے تھے۔ جب فرضیت کا خطرہ نہ رہا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باقاعدہ جماعت کا دوبارہ آغاز فرما دیا، لہٰذا اب یہی سنت ہے کیونکہ خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرنا بھی ضروری ہے، نیز اس پر صحابہ اور مابعد ادوار کا اجماع ہے، لہٰذا کسی مسجد کو تراویح کی جماعت سے محروم نہیں رکھنا چاہیے، البتہ اگر کوئی حافظ قاری جماعت سے الگ پڑھنا چاہے تو وہ الگ بھی پڑھ سکتا ہے۔ عشاء کے فوراً بعد پڑھے یا تہجد کے وقت۔ ہاں، جماعت عشاء کے بعد ہی ہوگی۔ مسنون نماز تراویح گیارہ رکعات ہے کیونکہ جن دنوں آپ نے جماعت کروائی تھی، گیارہ رکعت ہی پڑھائی تھیں، نیز رمضان اور غیر رمضان آپ علیہ السلام اتنی نماز ہی پڑھتے تھے۔ نبی اکرمﷺ یا کسی صحابی سے نماز تراویح کسی صحیح حدیث یا اثر سے گیارہ رکعات سے زائد ثابت نہیں، اس لیے اسی پر اکتفاء مسنون ومشروع ہے۔ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار کی روشنی میں گیارہ سے زائد نوافل (نماز تراویح) کا دعویٰ کیا جاتا ہے، وہ سب ضعیف اور محدثین کے ہاں ناقابل اعتبار ہیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (صلاۃ التراویح للالبانی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
نضر بن شیبان کہتے ہیں: میں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے کہا کہ آپ مجھ سے ماہ رمضان کے متعلق کوئی ایسی بات بیان کریں جو آپ نے اپنے والد (عبدالرحمٰن بن عوف ؓ) سے سنی ہو، اور اسے آپ کے والد نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہو، آپ کے والد اور رسول اللہ ﷺ کے بیچ کوئی اور حائل نہ ہو۔ انہوں نے کہا: اچھا سنو! مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بیشک اللہ تبارک و تعالیٰ نے تم پر رمضان کے روزے فرض کیے ہیں، اور میں نے تمہارے لیے اس میں قیام کرنے کو سنت قرار دیا ہے اس میں جو شخص ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے روزہ رکھے گا اور (عبادت پر) کمربستہ ہو گا تو وہ اپنے گناہوں سے ایسے نکل جائے گا جیسے اس کی ماں نے اسے آج ہی جنا ہو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
An-Nadr bin Shaiban said:“I said to Abu Salamah bin ‘Abdur Rahman: ‘Tell me of something — that you heard from your father, that he heard from the Messenger of Allah (ﷺ) with no one in between your father and the Messenger of Allah (ﷺ) - concerning the month of Ramadan.’ He said: ‘Yes; my father said: The Messenger of Allah (ﷺ) said: Allah enjoined the fast of Ramadan upon you, and I have made it Sunnah for you to spend its nights in prayer. Whoever fasts it and spends its nights in prayer out of faith and in the hope of reward, he will emerge from his sins as on the day his mother bore him.” (Da'if)