باب: اس شخص کے نام کا ذکر(جو محمد بن عبد الرحمٰن اور حضرت جابر بن عبد اللہؓ کے درمیان ہے)
)
Sunan-nasai:
The Book of Fasting
(Chapter: The Name of that Man)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2263.
حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ فتح مکہ کے سال رمضان المبارک میں مکے کی طرف چلے اور روزے رکھتے رہے حتیٰ کہ کراع غمیم پہنچے۔ لوگوں نے روزہ رکھا ہوا تھا۔ آپ کو یہ بات پہنچی کہ لوگوں کے لیے روزہ نبھانا مشکل ہوگیا ہے۔ یہ عصر کے بعد کی بات ہے۔ آپ نے پانی کا پیالہ منگوایا اور پیا۔ لوگ دیکھ رہے تھے۔ کچھ لوگوں نے تو روزہ کھول لیا لیکن کچھ لوگوں نے روزہ قائم رکھا۔ آپ کو یہ بات پہنچی کہ کچھ لوگ ابھی تک روزے سے ہیں۔ تو آپ نے فرمایا: ”یہ لوگ نافرمان ہیں۔“
تشریح:
(1) ”یہ لوگ نافرمان ہیں۔“ اللہ کے رسولﷺ نے محسوس فرمایا کہ آج روزہ مشقت والا ہے اور مشقت والا روزہ سفر میں جائز نہیں، لہٰذا آپ نے افطار فرما لیا۔ اگرچہ آپ کو مشقت نہ تھی، تاکہ آپ کی وجہ سے کسی کو مشقت برداشت نہ کرنی پڑے اسی علت کے پیش نظر ان لوگوں کو بھی افطار کر لینا چاہیے تھا، جنہیں زیادہ مشقت نہ تھی، تاکہ ان کی وجہ سے دوسروں کو افطار میں جھجک محسوس نہ ہو۔ جس طرح اپنی مشقت کا لحاظ ضروری ہے، اسی طرح دوسروں کی مشقت کا لحاظ بھی ضروری ہے۔ اس بنا پر آپ نے افطار فرمایا۔ جن حضرات نے اس اصول کا لحاظ نہ رکھا بلکہ آپ کے علانیہ افطار کے باوجود افطار نہ کیا، انہوں نے فرمانی کی۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس طرح آپ کا فرمان واجب الاتباع ہے، اسی طرح آپ کا وہ فعل جو آپ اس لیے کریں کہ لوگ بھی اس کی اقتدا کریں، بعینہٖ واجب الاتباع ہے ورنہ یہ نافرمانی ہوگی۔ (3) رسول اللہﷺ سے بڑھ کر نیک اور متقی بننا زبردست غلطی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2264
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2262
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2265
تمہید کتاب
الصيام کے لغوی معنی ہیں اَلإمساك کہا جاتا ہے[فلان صام عن الكلام] فلاں شخص گفتگو سے رک گیا ہے شرعی طور پر اس کے معنی ہیں طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے ‘پینے اور جماع سے شرعی طریقے کے مطابق رک جانا ‘نیز لغویات بے ہودہ گوئی اور مکروہ حرام کلام سے رک جانا بھی اس میں شامل ہے ۔
تمہید باب
آئندہ روایت سے معلوم ہو رہا ہے کہ اس کا نام محمد بن عمرو بن حسن ہے۔
حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ فتح مکہ کے سال رمضان المبارک میں مکے کی طرف چلے اور روزے رکھتے رہے حتیٰ کہ کراع غمیم پہنچے۔ لوگوں نے روزہ رکھا ہوا تھا۔ آپ کو یہ بات پہنچی کہ لوگوں کے لیے روزہ نبھانا مشکل ہوگیا ہے۔ یہ عصر کے بعد کی بات ہے۔ آپ نے پانی کا پیالہ منگوایا اور پیا۔ لوگ دیکھ رہے تھے۔ کچھ لوگوں نے تو روزہ کھول لیا لیکن کچھ لوگوں نے روزہ قائم رکھا۔ آپ کو یہ بات پہنچی کہ کچھ لوگ ابھی تک روزے سے ہیں۔ تو آپ نے فرمایا: ”یہ لوگ نافرمان ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”یہ لوگ نافرمان ہیں۔“ اللہ کے رسولﷺ نے محسوس فرمایا کہ آج روزہ مشقت والا ہے اور مشقت والا روزہ سفر میں جائز نہیں، لہٰذا آپ نے افطار فرما لیا۔ اگرچہ آپ کو مشقت نہ تھی، تاکہ آپ کی وجہ سے کسی کو مشقت برداشت نہ کرنی پڑے اسی علت کے پیش نظر ان لوگوں کو بھی افطار کر لینا چاہیے تھا، جنہیں زیادہ مشقت نہ تھی، تاکہ ان کی وجہ سے دوسروں کو افطار میں جھجک محسوس نہ ہو۔ جس طرح اپنی مشقت کا لحاظ ضروری ہے، اسی طرح دوسروں کی مشقت کا لحاظ بھی ضروری ہے۔ اس بنا پر آپ نے افطار فرمایا۔ جن حضرات نے اس اصول کا لحاظ نہ رکھا بلکہ آپ کے علانیہ افطار کے باوجود افطار نہ کیا، انہوں نے فرمانی کی۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس طرح آپ کا فرمان واجب الاتباع ہے، اسی طرح آپ کا وہ فعل جو آپ اس لیے کریں کہ لوگ بھی اس کی اقتدا کریں، بعینہٖ واجب الاتباع ہے ورنہ یہ نافرمانی ہوگی۔ (3) رسول اللہﷺ سے بڑھ کر نیک اور متقی بننا زبردست غلطی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے سال رمضان میں مکہ کے لیے نکلے، تو آپ نے روزہ رکھا، یہاں تک کہ آپ کراع الغمیم پر پہنچے، تو لوگوں نے بھی روزہ رکھ لیا، تو آپ کو خبر ملی کہ لوگوں پر روزہ دشوار ہو گیا ہے، تو آپ نے عصر کے بعد پانی سے بھرا ہوا پیالہ منگایا، پھر پانی پیا، اور لوگ دیکھ رہے تھے، تو (آپ کو دیکھ کر) بعض لوگوں نے روزہ توڑ دیا، اور بعض رکھے رہ گئے، آپ کو یہ بات پہنچی کہ کچھ لوگ روزہ رکھے ہوئے ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہی لوگ نافرمان ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Jabir said: “The Messenger of Allah (ﷺ) went out to Makkah in the year of the Conquest in Ramadan. He fasted until he reached Kura’ Al Ghamim, and the people fasted. Then he heard that it was too difficult for the people to fast, so he called for a vessel of water after ‘Asr and drank it while the people were looking on. Then some of the people broke their fast and some continued to fast. He heard that some people were still fasting and he said: ‘Those are the disobedient ones.”(Sahih)