باب: حضرت حمزہ بن عمرو کی حدیث میں عروہ کے شاگردوں کے اختلاف کا ذکر
)
Sunan-nasai:
The Book of Fasting
(Chapter: Mentioning the Differences Reported from 'Urwah in the Narration of Hamzah about it)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2303.
حضرت حمزہ بن عمرو ؓ سے منقول ہے، انہوں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا: میں اپنے آپ میں دوران سفر میں روزہ رکھنے کی طاقت پاتا ہوں تو کیا روزہ رکھنے میں مجھ پر کوئی گناہ ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ”روزہ نہ رکھنا اللہ عزوجل کی طرف سے رخصت ہے۔ جو رخصت پر عمل کرے تو اچھی بات ہے اور جو روزہ رکھنا چاہے تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں۔“
تشریح:
مندرجہ بالا روایت میں رسول اللہﷺ سے صراحتاً ثابت ہے کہ سفر میں روزہ رکھنا، نہ رکھنا برابر ہے۔ ہر مسافر اپنے حالات کے لحاظ سے دونوں میں سے کسی پر بھی عمل کر سکتا ہے۔ اگر مشقت نہ ہو تو فرض روزہ رکھ لینا بہتر اور افضل ہے کیونکہ بعد میں قضا میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے (اگرچہ نہ رکھنا بھی جائز ہے) اور اگر مشقت ہو تو روزہ نہ رکھنا بہتر ہے تاکہ روزہ اس کے اور اس کے ساتھیوں کے لیے مصیبت نہ بن جائے۔ نفلی روزے میں دونوں باتیں برابر ہیں۔ یہ مندرجہ بالا روایات کا خلاصہ ہے۔ اس طریقے سے تمام روایات پر عمل ہو جائے گا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2304
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2302
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2305
تمہید کتاب
الصيام کے لغوی معنی ہیں اَلإمساك کہا جاتا ہے[فلان صام عن الكلام] فلاں شخص گفتگو سے رک گیا ہے شرعی طور پر اس کے معنی ہیں طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے ‘پینے اور جماع سے شرعی طریقے کے مطابق رک جانا ‘نیز لغویات بے ہودہ گوئی اور مکروہ حرام کلام سے رک جانا بھی اس میں شامل ہے ۔
تمہید باب
حضرت عروہ کے شاگرد ابو الاسود نے ان کے اور حضرت حمزہ کے درمیان ابو مراوح کا واسطہ ذکر کیا ہے، جبکہ ان کے بیٹے ہشام نے ان کے درمیان واسطہ ذکر نہیں کیا۔
حضرت حمزہ بن عمرو ؓ سے منقول ہے، انہوں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا: میں اپنے آپ میں دوران سفر میں روزہ رکھنے کی طاقت پاتا ہوں تو کیا روزہ رکھنے میں مجھ پر کوئی گناہ ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ”روزہ نہ رکھنا اللہ عزوجل کی طرف سے رخصت ہے۔ جو رخصت پر عمل کرے تو اچھی بات ہے اور جو روزہ رکھنا چاہے تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں۔“
حدیث حاشیہ:
مندرجہ بالا روایت میں رسول اللہﷺ سے صراحتاً ثابت ہے کہ سفر میں روزہ رکھنا، نہ رکھنا برابر ہے۔ ہر مسافر اپنے حالات کے لحاظ سے دونوں میں سے کسی پر بھی عمل کر سکتا ہے۔ اگر مشقت نہ ہو تو فرض روزہ رکھ لینا بہتر اور افضل ہے کیونکہ بعد میں قضا میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے (اگرچہ نہ رکھنا بھی جائز ہے) اور اگر مشقت ہو تو روزہ نہ رکھنا بہتر ہے تاکہ روزہ اس کے اور اس کے ساتھیوں کے لیے مصیبت نہ بن جائے۔ نفلی روزے میں دونوں باتیں برابر ہیں۔ یہ مندرجہ بالا روایات کا خلاصہ ہے۔ اس طریقے سے تمام روایات پر عمل ہو جائے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حمزہ بن عمرو رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: میں اپنے اندر سفر میں روزہ رکھنے کی طاقت پاتا ہوں، تو کیا (اگر میں روزہ رکھوں تو) مجھ پر گناہ ہو گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ اللہ عزوجل کی جانب سے رخصت ہے، تو جس نے اس رخصت کو اختیار کیا تو یہ اچھا ہے، اور جو روزہ رکھنا چاہے تو اس پر کوئی حرج نہیں۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Hamzah bin ‘Amr that he said to the Messenger of Allah (ﷺ) “I feel able to fast while traveling; is there any sin on me?” He said: “It is a concession from Allah, the Mighty and Sublime, so whoever accepts it has done well, and whoever wants to fast, there is no sin on him.” (Sahih)