Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Minerals)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2495.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، نبیﷺ نے فرمایا: ”جانور کا کیا ہوا نقصان رائیگاں ہے، کنویں کا نقصان رائیگاں ہے اور معدنی کان کا نقصان بھی رائیگاں ہے۔ اور مدفون خزانے میں پانچواں حصہ ہے۔“
تشریح:
(1) عجماء کے معنیٰ ہیں: گونگا۔ چونکہ جانور ہمارے لحاظ سے بے زبان ہیں، لہٰذا انھیں عجماء یا گونگے ہی کہا جاتا ہے۔ جانور مالک سے بھاگ جائے یا چرتے پھرتے کوئی نقصان کر دے، مثلاً کسی کو سینگ مار دے یا ٹانگ لگا دے یا کوئی اس سے گر پڑے اور زخم آجائے تو جانور کے مالک پر کوئی تاوان نہ ڈالا جائے گا کیونکہ جانور ان مسائل میں بے سمجھ ہیں اور مالک پاس نہیں، یا اگر ہو بھی تو اس کا کوئی قصور نہیں، البتہ اگر اس نقصان میں مالک کا کوئی دخل ہو، مثلاً اس نے خود جانور کو کسی کے پیچھے لگایا یا روکنے کی کوشش ہی نہیں کی یا عادی نقصان پہنچانے والا جانور قصداً کھلا چھوڑا (مثلاً: کاٹنے والا کتا یا کوئی درندہ رکھا اور کھلا چھوڑا) تو اس پر نقصان کا تاوان ڈالا جا سکتا ہے ہے۔ اسی طرح اگر جانور رات کو کھلا چھوڑ دے اور وہ کسی کی فصل پر چر جائے یا دن کے وقت اس کی موجودگی میں جانور کسی کی فصل چر جائے تو وہ نقصان بھی جانور کے مالک کے ذمے ہوگا۔ (2) کان یا کنواں کھودتے وقت یا اس میں کام کرتے وقت کوئی شخص کان یا کنواں گرنے سے زخمی ہو جائے یا مر جائے تو مالک پر کوئی تاوان نہ ہوگا۔ اسی طرح کوئی شخص کان یا کنویں میں گر کر زخمی ہو جائے یا مر جائے تو مالک سے کوئی تاوان وصول نہیں کیا جا سکتا الا یہ کہ اس کا کوئی جرم ثابت ہوا۔ (3) بعض کا کہنا ہے کہ مدفون خزانہ کسی سرکاری جگہ سے ملے تو بیت المال کو خمس ادا کیا جائے گا، باقی اس کو جسے ملا۔ اگر اپنی ذاتی جگہ سے ملا تو اس میں حکومت کا کوئی حصہ نہیں۔ لیکن راجح یہ ہے کہ جونسی بھی زمین ہو، مدفون خزانہ ملنے پر خمس ادا کیا جائے گا۔ حدیث میں کسی خاص زمین کا تعین نہیں۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2496
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2494
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2497
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، نبیﷺ نے فرمایا: ”جانور کا کیا ہوا نقصان رائیگاں ہے، کنویں کا نقصان رائیگاں ہے اور معدنی کان کا نقصان بھی رائیگاں ہے۔ اور مدفون خزانے میں پانچواں حصہ ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) عجماء کے معنیٰ ہیں: گونگا۔ چونکہ جانور ہمارے لحاظ سے بے زبان ہیں، لہٰذا انھیں عجماء یا گونگے ہی کہا جاتا ہے۔ جانور مالک سے بھاگ جائے یا چرتے پھرتے کوئی نقصان کر دے، مثلاً کسی کو سینگ مار دے یا ٹانگ لگا دے یا کوئی اس سے گر پڑے اور زخم آجائے تو جانور کے مالک پر کوئی تاوان نہ ڈالا جائے گا کیونکہ جانور ان مسائل میں بے سمجھ ہیں اور مالک پاس نہیں، یا اگر ہو بھی تو اس کا کوئی قصور نہیں، البتہ اگر اس نقصان میں مالک کا کوئی دخل ہو، مثلاً اس نے خود جانور کو کسی کے پیچھے لگایا یا روکنے کی کوشش ہی نہیں کی یا عادی نقصان پہنچانے والا جانور قصداً کھلا چھوڑا (مثلاً: کاٹنے والا کتا یا کوئی درندہ رکھا اور کھلا چھوڑا) تو اس پر نقصان کا تاوان ڈالا جا سکتا ہے ہے۔ اسی طرح اگر جانور رات کو کھلا چھوڑ دے اور وہ کسی کی فصل پر چر جائے یا دن کے وقت اس کی موجودگی میں جانور کسی کی فصل چر جائے تو وہ نقصان بھی جانور کے مالک کے ذمے ہوگا۔ (2) کان یا کنواں کھودتے وقت یا اس میں کام کرتے وقت کوئی شخص کان یا کنواں گرنے سے زخمی ہو جائے یا مر جائے تو مالک پر کوئی تاوان نہ ہوگا۔ اسی طرح کوئی شخص کان یا کنویں میں گر کر زخمی ہو جائے یا مر جائے تو مالک سے کوئی تاوان وصول نہیں کیا جا سکتا الا یہ کہ اس کا کوئی جرم ثابت ہوا۔ (3) بعض کا کہنا ہے کہ مدفون خزانہ کسی سرکاری جگہ سے ملے تو بیت المال کو خمس ادا کیا جائے گا، باقی اس کو جسے ملا۔ اگر اپنی ذاتی جگہ سے ملا تو اس میں حکومت کا کوئی حصہ نہیں۔ لیکن راجح یہ ہے کہ جونسی بھی زمین ہو، مدفون خزانہ ملنے پر خمس ادا کیا جائے گا۔ حدیث میں کسی خاص زمین کا تعین نہیں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جانور کا زخمی کرنا رائیگاں ہے، کنوئیں میں گر کر کوئی مر جائے تو وہ بھی رائیگاں ہے، کان میں کوئی دب کر مر جائے تو وہ بھی رائیگاں ہے۱؎ اور جاہلیت کے دفینے میں پانچواں حصہ ہے۔“ ۲؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی ان چیزوں کے مالکوں سے دیت نہیں لی جائے گی۔ ۲؎ : اور باقی چار حصے پانے والے کے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Hurairah (RA) that the Prophet (ﷺ) said: “The injuries caused by the beast are without liability, and wells are without liability, and mines are without liability, and the Khumus is due on Rikaz.” (Sahih)