Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Charity From Ghulul[1])
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2524.
حضرت ابو ملیح کے والد سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے سنا: ”اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر نماز قبول نہیں کرتا اور حرام مال سے صدقہ قبول نہیں کرتا۔“
تشریح:
قبولیت کا مطلب ثواب ہے، یعنی حرام مال دے صدقہ کرنے والے کو ثواب نہ ملے گا، البتہ اس سے فقر کو فائدہ ہو جائے گا۔ یاد رہے کہ حرام مال اس شخص کے لیے ناجائز ہے جس نے ناحق حاصل کیا، تاہم فقیر چونکہ اس بات سے ناواقف ہے کہ صدقہ کرنے والے نے صدقہ حرام مال سے کیا ہے یا حلال مال سے، اس لیے اس کے لیے اس کا استعمال جائز ہوگا، لیکن علم رکھتے ہوئے کسی حرام کی کمائی سے صدقہ لینا اس کے لیے جائز نہ ہوگا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2525
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2523
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2525
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت ابو ملیح کے والد سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے سنا: ”اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر نماز قبول نہیں کرتا اور حرام مال سے صدقہ قبول نہیں کرتا۔“
حدیث حاشیہ:
قبولیت کا مطلب ثواب ہے، یعنی حرام مال دے صدقہ کرنے والے کو ثواب نہ ملے گا، البتہ اس سے فقر کو فائدہ ہو جائے گا۔ یاد رہے کہ حرام مال اس شخص کے لیے ناجائز ہے جس نے ناحق حاصل کیا، تاہم فقیر چونکہ اس بات سے ناواقف ہے کہ صدقہ کرنے والے نے صدقہ حرام مال سے کیا ہے یا حلال مال سے، اس لیے اس کے لیے اس کا استعمال جائز ہوگا، لیکن علم رکھتے ہوئے کسی حرام کی کمائی سے صدقہ لینا اس کے لیے جائز نہ ہوگا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوالملیح کے والد اسامہ بن عمیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ عزوجل بغیر پاکی کے کوئی نماز قبول نہیں کرتا، اور نہ ہی حرام مال سے کوئی صدقہ قبول کرتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Al-Malih that his father said: “I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: ‘Allah, the Mighty and Sublime, does not accept prayer without purification or charity from Ghulul.” (Sahih)