Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: The Poor's Might)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2527.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”(کبھی) ایک درہم (کا ثواب) لاکھ درہم سے بڑھ جاتا ہے۔ صحابہ نے پوچھا: وہ کیسے؟ آپ نے فرمایا: ”ایک آدمی کے پاس کل دو درہم ہوں، اس نے ان میں سے ایک صدقہ کر دیا۔ اور دوسرا شخص اپنے مال کے ایک کونے میں گیا۔ اس میں سے ایک لاکھ درہم اٹھایا اور صدقہ کر دیا۔“
تشریح:
مذکورہ روایت اور اگلی روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین میں سے بعض نے حسن قرار دیا ہے، بعض نے صحیح اور بعض نے اسنادہ قوی کا حکم لگایا ہے، نیز انھوں نے ان احادیث پر تحقیقی بحث کرتے ہوئے ان کے شواہد اور متابعات کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۲۲/ ۳۴۹- ۳۵۱، والموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: ۱۴/ ۴۹۸، وصحیح سنن النسائي للألباني: ۲/ ۲۰۳، رقم: ۲۵۲۶، ۲۵۲۷) علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ گنتی کو نہیں دیکھتا بلکہ خرچ کرنے والے کے جذبے اور اس کے دل کی حالت کو دیکھتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ﴾(الحج: ۳۷)”اللہ تعالیٰ کے پاس قربانی کے گوشت اور ان (قربانی والے جانوروں) کے خون نہیں پہنچتے، بلکہ اس کے پاس تمہارا تقویٰ اور خلوص پہنچتا ہے۔“ یاد رہے اجر بھی اسی چیز کا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2528
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2526
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2528
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”(کبھی) ایک درہم (کا ثواب) لاکھ درہم سے بڑھ جاتا ہے۔ صحابہ نے پوچھا: وہ کیسے؟ آپ نے فرمایا: ”ایک آدمی کے پاس کل دو درہم ہوں، اس نے ان میں سے ایک صدقہ کر دیا۔ اور دوسرا شخص اپنے مال کے ایک کونے میں گیا۔ اس میں سے ایک لاکھ درہم اٹھایا اور صدقہ کر دیا۔“
حدیث حاشیہ:
مذکورہ روایت اور اگلی روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین میں سے بعض نے حسن قرار دیا ہے، بعض نے صحیح اور بعض نے اسنادہ قوی کا حکم لگایا ہے، نیز انھوں نے ان احادیث پر تحقیقی بحث کرتے ہوئے ان کے شواہد اور متابعات کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۲۲/ ۳۴۹- ۳۵۱، والموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: ۱۴/ ۴۹۸، وصحیح سنن النسائي للألباني: ۲/ ۲۰۳، رقم: ۲۵۲۶، ۲۵۲۷) علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ گنتی کو نہیں دیکھتا بلکہ خرچ کرنے والے کے جذبے اور اس کے دل کی حالت کو دیکھتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ﴾(الحج: ۳۷)”اللہ تعالیٰ کے پاس قربانی کے گوشت اور ان (قربانی والے جانوروں) کے خون نہیں پہنچتے، بلکہ اس کے پاس تمہارا تقویٰ اور خلوص پہنچتا ہے۔“ یاد رہے اجر بھی اسی چیز کا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایک درہم ایک لاکھ درہم سے بڑھ گیا“، لوگوں نے (حیرت سے) پوچھا: یہ کیسے؟ آپ نے فرمایا: ”ایک شخص کے پاس دو درہم تھے، ان دو میں سے اس نے ایک صدقہ کر دیا، اور دوسرا شخص اپنی دولت (کے انبار کے) ایک گوشے کی طرف گیا اور اس (ڈھیر) میں سے ایک لاکھ درہم لیا، اور اسے صدقہ کر دیا۔“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : مطلب یہ ہے کہ ثواب میں دینے والے کی حالت کا لحاظ کیا جاتا ہے نہ کہ دیئے گئے مال کا، اللہ کے نزدیک قدر و قیمت کے اعتبار ایک لاکھ درہم اس غریب کے ایک درہم کے برابر نہیں ہے جس کے پاس صرف دو ہی درہم تھے، اور ان دو میں سے بھی ایک اس نے اللہ کی راہ میں دے دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ahu Hurairah that the Messenger of Allah (ﷺ) said: “A Dirham surpassed a hundred thousand Dirhams.” They said: “How?” He said: “A man had two Dirhams and gave one in charity, and another man went to part of his wealth and took out a hundred thousand Dirhams and gave them in charity.” (Da‘if)