باب: خزانچی اپنے مالک کی اجازت سے صدقہ کرے تو اسے بھی ثواب ملے گا
)
Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: The Reward Of The Storekeeper If He Gives Charity With His Master's Permission)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2560.
حضرت ابوموسیٰ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔“ نیز فرمایا: ”امانت دار خازن جو خوش دلی سے وہ چیز (اللہ کے راستے میں) دیتا ہے، جس کا اسے حکم دیا گیا ہو، وہ بھی صدقے کرنے والوں میں شمار ہوتا ہے۔“
تشریح:
(1) اکیلی اکیلی اینٹ کوئی وقعت نہیں رکھتی مگر جب ایک دوسرے سے مل جائیں تو مضبوط دیوار بن جاتی ہے۔ اور دیواریں مل کر چار دیواری اور چھت کے ساتھ مکمل مکان بن جاتا ہے جو ہر قسم کے طوفانوں کا بلا کھٹکے مقابلہ کر سکتا ہے۔ مسلمانوں کو بھی ایک دوسرے کے ساتھ ایسے ہی ہونا چاہیے۔ (2) ’’صدقہ کرنے والوں میں۔‘‘ کیونکہ ظاہراً تو صدقہ وہی کر رہا ہے۔ صدقہ کرنے والوں سے مراد سب صدقہ کرنے والے یا یہ دو شخص مالک اور خزانچی ہیں۔ یاد رہے کہ مالک کو اس کی ملکیت کی بنا پر ثواب ملے گا اور خزانچی کو اس کے فعل پر ضروری نہیں کہ دونوں ثواب میں برابر ہوں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2561
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2559
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2561
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت ابوموسیٰ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔“ نیز فرمایا: ”امانت دار خازن جو خوش دلی سے وہ چیز (اللہ کے راستے میں) دیتا ہے، جس کا اسے حکم دیا گیا ہو، وہ بھی صدقے کرنے والوں میں شمار ہوتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اکیلی اکیلی اینٹ کوئی وقعت نہیں رکھتی مگر جب ایک دوسرے سے مل جائیں تو مضبوط دیوار بن جاتی ہے۔ اور دیواریں مل کر چار دیواری اور چھت کے ساتھ مکمل مکان بن جاتا ہے جو ہر قسم کے طوفانوں کا بلا کھٹکے مقابلہ کر سکتا ہے۔ مسلمانوں کو بھی ایک دوسرے کے ساتھ ایسے ہی ہونا چاہیے۔ (2) ’’صدقہ کرنے والوں میں۔‘‘ کیونکہ ظاہراً تو صدقہ وہی کر رہا ہے۔ صدقہ کرنے والوں سے مراد سب صدقہ کرنے والے یا یہ دو شخص مالک اور خزانچی ہیں۔ یاد رہے کہ مالک کو اس کی ملکیت کی بنا پر ثواب ملے گا اور خزانچی کو اس کے فعل پر ضروری نہیں کہ دونوں ثواب میں برابر ہوں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مومن، مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے“، نیز فرمایا: ”امانت دار خازن جو خوش دلی سے وہ چیز دے جس کا اسے حکم دیا گیا ہو تو وہ بھی صدقہ دینے والوں میں سے ایک ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Musa said: “The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘The believers are like a building, they support one another.’ And he said: ‘The trustworthy storekeeper who gives that which he has been commanded to give, and is happy with what he is doing, is one of the men giving charity.” (Sahih)