Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Responding To The One Who Asks)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2565.
حضرت ابن بجید انصاری کی دادی بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”سوالی کو کچھ نہ کچھ دے کر واپس کرو، خواہ جلا ہوا کھر ہی ہو۔“
تشریح:
مقصد مبالغہ ہے، نیز یہ حکم تب ہے جب سائل حق دار ہو اور مسئول کے پاس گنجائش ہو، ورنہ پیشہ ور گداگروں کو (بشرطیکہ معلوم ہو) دینا تو گناہ ہی کے زمرے میں آسکتا ہے کیونکہ اس طرح گداگری کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے جبکہ اسلام نے اس کی سختی کے ساتھ ممانعت فرمائی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2566
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2564
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2566
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت ابن بجید انصاری کی دادی بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”سوالی کو کچھ نہ کچھ دے کر واپس کرو، خواہ جلا ہوا کھر ہی ہو۔“
حدیث حاشیہ:
مقصد مبالغہ ہے، نیز یہ حکم تب ہے جب سائل حق دار ہو اور مسئول کے پاس گنجائش ہو، ورنہ پیشہ ور گداگروں کو (بشرطیکہ معلوم ہو) دینا تو گناہ ہی کے زمرے میں آسکتا ہے کیونکہ اس طرح گداگری کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے جبکہ اسلام نے اس کی سختی کے ساتھ ممانعت فرمائی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابن بجید انصاری اپنی دادی سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مانگنے والے کو کچھ دے کر لوٹایا کرو اگرچہ کھر ہی سہی۔“ ہارون کی روایت میں «محرق» (جلی ہوئی) کا اضافہ ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Bujaid Al-Ansari from his grandmother that the Messenger of Allah (ﷺ) said: “Respond to the one who asks even with a sheep’s foot.” According to the narration of Harun: “With a sheep’s burned foot.” (Sahih)