باب: جو شخص اللہ تعالیٰ کی ذات کا واسطہ دے کر مانگے
)
Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: One Who Asks By The Face Of Allah, The Mighty And Sublime)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2568.
حضرت بہز بن حکیم کے دادا (حضرت معاویہ بن حیدہ قشیرہ ؓ ) بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! میں نے آپ کے پاس آنے سے قبل اپنے ہاتھ کی انگلیوں کی تعداد سے بھی زیادہ قسمیں کھائی تھیں کہ نہ میں آپ کے پاس آوں گا اور نہ آپ کا دین قبول کروں گا۔ اور میں دین کی کوئی سمجھ نہیں رکھتا مگر جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مجھے سکھائیں۔ اور میں آپ سے اللہ تعالیٰ کی ذات کے واسطے سے سوال کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کیا چیز دے کر ہمارے پاس بھیجا ہے؟ اپ نے فرمایا: ”اسلام دے کر۔“ میں نے عرض کیا: اسلام کی علامات کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”یہ کہ تو کہے: میں نے اپنی ذات کو اللہ تعالیٰ کے تابع کر دیا ہے اور (اس کے علاوہ ہر چیز سے) علیحدہ ہو جائے اور نماز قائم کرے اور زکاۃ ادا کرے۔ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے قابل احترام ہے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے مددگار بھائی ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی مشرک سے اس کے اسلام لانے کے بعد بھی کوئی عمل قبول نہیں فرماتا حتیٰ کہ وہ مشرکین کو چھوڑ کر مسلمانوں سے آملے۔“
تشریح:
”مسلمانوں سے آملے۔“ یعنی ہجرت کر لے۔ نبیﷺ کے دور میں مسلمانوں کی قوت مجتمع کرنے کی ضرورت تھی، نیز اہل کفر سے اس قدر مخاصمت تھی کہ دونوں کا اکٹھا رہنا اور دین پر عمل کرنا ناممکن تھا، اس لیے ہجرت فرض تھی۔ جب اسلام پھیل گیا اور کفر سکڑ گیا تو آپ نے اعلان فرما دیا کہ اب مکہ سے ہجرت کی ضرورت نہیں رہی۔ گویا ہجرت، لازمہ اسلام نہیں بلکہ اس کا فیصلہ حالات کے جائزے سے ہوگا۔ نہ ہر دارالکفر میں رہنا جائز ہے اور نہ ہر دارلکفر سے ہجرت واجب ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2569
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2567
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2569
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت بہز بن حکیم کے دادا (حضرت معاویہ بن حیدہ قشیرہ ؓ ) بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! میں نے آپ کے پاس آنے سے قبل اپنے ہاتھ کی انگلیوں کی تعداد سے بھی زیادہ قسمیں کھائی تھیں کہ نہ میں آپ کے پاس آوں گا اور نہ آپ کا دین قبول کروں گا۔ اور میں دین کی کوئی سمجھ نہیں رکھتا مگر جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مجھے سکھائیں۔ اور میں آپ سے اللہ تعالیٰ کی ذات کے واسطے سے سوال کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کیا چیز دے کر ہمارے پاس بھیجا ہے؟ اپ نے فرمایا: ”اسلام دے کر۔“ میں نے عرض کیا: اسلام کی علامات کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”یہ کہ تو کہے: میں نے اپنی ذات کو اللہ تعالیٰ کے تابع کر دیا ہے اور (اس کے علاوہ ہر چیز سے) علیحدہ ہو جائے اور نماز قائم کرے اور زکاۃ ادا کرے۔ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے قابل احترام ہے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے مددگار بھائی ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی مشرک سے اس کے اسلام لانے کے بعد بھی کوئی عمل قبول نہیں فرماتا حتیٰ کہ وہ مشرکین کو چھوڑ کر مسلمانوں سے آملے۔“
حدیث حاشیہ:
”مسلمانوں سے آملے۔“ یعنی ہجرت کر لے۔ نبیﷺ کے دور میں مسلمانوں کی قوت مجتمع کرنے کی ضرورت تھی، نیز اہل کفر سے اس قدر مخاصمت تھی کہ دونوں کا اکٹھا رہنا اور دین پر عمل کرنا ناممکن تھا، اس لیے ہجرت فرض تھی۔ جب اسلام پھیل گیا اور کفر سکڑ گیا تو آپ نے اعلان فرما دیا کہ اب مکہ سے ہجرت کی ضرورت نہیں رہی۔ گویا ہجرت، لازمہ اسلام نہیں بلکہ اس کا فیصلہ حالات کے جائزے سے ہوگا۔ نہ ہر دارالکفر میں رہنا جائز ہے اور نہ ہر دارلکفر سے ہجرت واجب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
معاویہ بن حیدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا: اللہ کے نبی! میں اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کی تعداد سے بھی زیادہ بار یہ قسم کھانے کے بعد کہ میں نہ آپ کے پاس آؤں گا اور نہ آپ کا دین قبول کروں گا۔ آپ کے پاس آیا ہوں، میں ایک بے عقل اور ناسمجھ انسان ہوں (اب بھی کچھ نہیں سمجھتا) سوائے اس کے جو اللہ اور اس کے رسول نے مجھے سکھا دیا ہے۔ میں اللہ کی ذات کا حوالہ دے کر آپ سے پوچھتا ہوں: اللہ نے آپ کو ہمارے پاس کیا چیزیں دے کر بھیجا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اسلام دے کر“، میں نے عرض کیا: ”اسلام کی نشانیاں کیا ہیں؟“ تو آپ نے فرمایا: ”یہ ہے کہ تم کہو: میں نے اپنی ذات کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا اور اپنے آپ کو کفر و شرک کی آلائشوں سے پاک کر لیا ہے، اور تم نماز قائم کرو، زکاۃ دو۔ ہر مسلمان دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔۱؎ ہر ایک دوسرے کا بھائی و مددگار ہے، اللہ تعالیٰ مشرک کا کوئی عمل اس کے بعد کہ وہ اسلام لے آیا ہو قبول نہیں کرتا، یا وہ مشرکین کو چھوڑ کر مسلمانوں سے آ ملے۔۲؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی ہر مسلمان کی جان، مال عزت و آبرو دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ ۲؎ : اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دار الشرک سے دار السلام کی طرف ہجرت واجب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Bahz bin Hakim narrated from his father that his grandfather Said: “I said: ‘Prophet of Allah (ﷺ)! I did not come to you until I had Sworn more than this many times’ - the number of fingers on his hands ‘that I would never come to you or follow your religion. I am a man who does not know anything except that which Allah and His Messenger teach me. I ask you by the face of Allah, the Mighty and Sublime, with what has your Lord sent you to us?’ He said: ‘With Islam.’ I said: ‘What are the signs of Islam?’ He said: ‘To say: I submit my face to Allah and give up Shirk, and to establish the Salah and to pay Zakah. Each Muslim is sacred and inviolable to his fellow Muslim; they support one another. Allah does not accept any deed from an idolator after he becomes a Muslim, until he departs from the idolators and joins the Muslims.” (Hasan)