Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: The Poor Man Who Shows Off)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2575.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”۔تین شخص ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان سے کلام نہیں فرمائے گا۔ بوڑھا بدکار، مغرور ومتکبر فقیر اور جھوٹا بادشاہ۔“
تشریح:
بادشاہ بہر حال حاکم اعلیٰ ہے، اسے کوئی خوف وخطر نہیں کہ جھوٹ بولے، نیز اس کا جھوٹ بہت بڑے فریب پر مبنی ہوگا اور عوام الناس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائے گا، نیز وہ پوری رعایا کے لیے نقصان دہ ہے، اس لیے اس کا جھوٹ بہت بڑا گناہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2576
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2574
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2576
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”۔تین شخص ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان سے کلام نہیں فرمائے گا۔ بوڑھا بدکار، مغرور ومتکبر فقیر اور جھوٹا بادشاہ۔“
حدیث حاشیہ:
بادشاہ بہر حال حاکم اعلیٰ ہے، اسے کوئی خوف وخطر نہیں کہ جھوٹ بولے، نیز اس کا جھوٹ بہت بڑے فریب پر مبنی ہوگا اور عوام الناس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائے گا، نیز وہ پوری رعایا کے لیے نقصان دہ ہے، اس لیے اس کا جھوٹ بہت بڑا گناہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تین طرح کے لوگ ہیں جن سے اللہ عزوجل قیامت کے دن بات نہیں کرے گا: بوڑھا زنا کار، گھمنڈی فقیر، جھوٹا امام۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Hurairah (RA) said: “The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘There are three to whom Allah, the Mighty and Sublime, will not speak on the Day of Resurrection: An old man who commits adultery, a poor man who is arrogant, and an Imam who tells lies.” (Hasan)