Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: The Virtue Of The One Who Strives To Sponsor A Widow)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2577.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”بیوہ اور مسکین کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرتا ہے۔“
تشریح:
(1) بیوہ کے لیے بھاگ دوڑ کرنا یقینا فضیلت والا کام ہے بشرطیکہ ذاتی منفعت، مثلاً: نکاح کے لیے مائل کرنا مقصود نہ ہو اور نہ اس کے عوض اس سے اپنے گھریلو کام ہی کروائے۔ (2) جہاد فی سبیل اللہ افضل عمل ہے کیونکہ اس میں انسان اپنی جان تک کو خطرے میں ڈال دیتا ہے، اس لیے اس کا ثواب سب سے زیادہ ہے۔ اسی طرح بیوہ اور مسکین جیسے بے سہارا افراد سے تعاون بھی عظیم نیکی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2578
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2576
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2578
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”بیوہ اور مسکین کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) بیوہ کے لیے بھاگ دوڑ کرنا یقینا فضیلت والا کام ہے بشرطیکہ ذاتی منفعت، مثلاً: نکاح کے لیے مائل کرنا مقصود نہ ہو اور نہ اس کے عوض اس سے اپنے گھریلو کام ہی کروائے۔ (2) جہاد فی سبیل اللہ افضل عمل ہے کیونکہ اس میں انسان اپنی جان تک کو خطرے میں ڈال دیتا ہے، اس لیے اس کا ثواب سب سے زیادہ ہے۔ اسی طرح بیوہ اور مسکین جیسے بے سہارا افراد سے تعاون بھی عظیم نیکی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بیوہ عورت اور مسکین پر خرچ کرنے کے لیے محنت کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے مانند ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Hurairah (RA) said: “The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘The one who strives to sponsor a widow or a poor person is like the one who strives in Jihad in the cause of Allah, the Mighty and Sublime.” (Sahih)