باب: جو شخص کوئی تاوان اٹھا لے اسے زکاۃ دی جا سکتی ہے
)
Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Charity For The One Who Undertakes A Financial Responsibility)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2580.
حضرت قبیصہ بن مخارق ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک مالی بوجھ اپنے ذمے لے لیا، پھر اس کی (ادائیگی میں تعاون کی) بابت سوال کرنے کے لیے میں رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا: ”قبیصہ! ہمارے پاس ٹھہرو۔ کوئی صدقہ آگیا تو تمھیں دینے کا حکم دیں گے۔“ پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اے قبیصہ! زکاۃ مانگنا صرف تین آدمیوں کے لیے جائز ہے: ایک تو وہ شخص جس نے (جھگڑا نمٹانے کے لیے) کوئی (مالی) بوجھ اپنے ذمے لے لیا، تو اس کے لیے زکاۃ و صدقات لینا جائز ہے، حتیٰ کہ اس کی ضرورت پوری ہو جائے۔ اور دوسرا وہ شخص جس پر کوئی ناگہانی آفت آگئی جس نے اس کا مال ختم کر دیا۔ اس کے لیے بھی مانگنا جائز ہے حتیٰ کہ اس کا گزارا ہونے لگے، پھر وہ مانگنے سے رک جائے۔ اور تیسرا وہ شخص جسے فاقوں کی نوبت آگئی حتیٰ کہ اس کی قوم کے تین سمجھ دار (معتبر) آدمی گواہی دیں کہ واقعتا فلاں شخص فاقہ زدہ ہے، تو اس کے لیے بھی مانگنا جائز ہے حتیٰ کہ وہ زندگی گزارنے کے قابل ہو جائے۔ اے قبیصہ! ان حالات کے علاوہ مانگنا حرام ہے اور مانگنے والا حرام کھاتا ہے۔“
تشریح:
(1) ”ناگہانی آفت“ مثلاً: سیلاب، آگ، فصلوں کی بیماری اور طوفان وغیرہ۔ (2) ”گواہی دیں“ یہ تب ہے جب وہ کمائی کے قابل ہو اور اس کے باوجود فاقہ زدہ ہو۔ ورنہ اگر وہ کمائی کے قابل ہی نہیں، مثلاً: دائمی مریض وغیرہ تو پھر گواہی کی کیا ضرورت ہے؟ الا یہ کہ وہ لوگ اسے جانتے ہی نہ ہوں، تو پھر گواہ کی ضرورت پڑے گی۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، رجاله رجال "الصحيح ". وقد أخرجه مسلم.
وصححه ابن الجارود) .
إسناده: حدثنا مسدد: ثنا حماد بن زيد عن هارود بن رئاب قال: حدثني
كِنَانَةُ بن نُعَيْم العَدَوِيُّ عن قَبِيصَةَ بن مخَارِقٍ الهلالي.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله رجال "الصحيح "؛ وقد أخرجه مسلم
وغيره، كما في "الإرواء" (868) .
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2581
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2579
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2581
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت قبیصہ بن مخارق ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک مالی بوجھ اپنے ذمے لے لیا، پھر اس کی (ادائیگی میں تعاون کی) بابت سوال کرنے کے لیے میں رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا: ”قبیصہ! ہمارے پاس ٹھہرو۔ کوئی صدقہ آگیا تو تمھیں دینے کا حکم دیں گے۔“ پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اے قبیصہ! زکاۃ مانگنا صرف تین آدمیوں کے لیے جائز ہے: ایک تو وہ شخص جس نے (جھگڑا نمٹانے کے لیے) کوئی (مالی) بوجھ اپنے ذمے لے لیا، تو اس کے لیے زکاۃ و صدقات لینا جائز ہے، حتیٰ کہ اس کی ضرورت پوری ہو جائے۔ اور دوسرا وہ شخص جس پر کوئی ناگہانی آفت آگئی جس نے اس کا مال ختم کر دیا۔ اس کے لیے بھی مانگنا جائز ہے حتیٰ کہ اس کا گزارا ہونے لگے، پھر وہ مانگنے سے رک جائے۔ اور تیسرا وہ شخص جسے فاقوں کی نوبت آگئی حتیٰ کہ اس کی قوم کے تین سمجھ دار (معتبر) آدمی گواہی دیں کہ واقعتا فلاں شخص فاقہ زدہ ہے، تو اس کے لیے بھی مانگنا جائز ہے حتیٰ کہ وہ زندگی گزارنے کے قابل ہو جائے۔ اے قبیصہ! ان حالات کے علاوہ مانگنا حرام ہے اور مانگنے والا حرام کھاتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”ناگہانی آفت“ مثلاً: سیلاب، آگ، فصلوں کی بیماری اور طوفان وغیرہ۔ (2) ”گواہی دیں“ یہ تب ہے جب وہ کمائی کے قابل ہو اور اس کے باوجود فاقہ زدہ ہو۔ ورنہ اگر وہ کمائی کے قابل ہی نہیں، مثلاً: دائمی مریض وغیرہ تو پھر گواہی کی کیا ضرورت ہے؟ الا یہ کہ وہ لوگ اسے جانتے ہی نہ ہوں، تو پھر گواہ کی ضرورت پڑے گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
قبیصہ بن مخارق رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک قرض اپنے ذمہ لے لیا، میں رسول اللہ ﷺ کے پاس (ادائیگی کے لیے روپے) مانگنے آیا، تو آپ نے فرمایا: ”اے قبیصہ رکے رہو۔ (کہیں سے) صدقہ آ لینے دو، تو ہم تمہیں اس میں سے دلوا دیں گے“، وہ کہتے ہیں: پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے قبیصہ! صدقہ تین طرح کے لوگوں کے سوا کسی کے لیے جائز نہیں ہے: وہ شخص جو کسی کا بوجھ خود اٹھا لے ۱؎ تو اس کے لیے مانگنا درست ہے، یہاں تک کہ اس سے اس کی ضرورت پوری ہو جائے، اور (دوسرا) وہ شخص جو کسی ناگہانی آفت کا شکار ہو جائے، اور وہ اس کا مال تباہ کر دے، تو اس کے لیے مانگنا جائز ہے یہاں تک کہ وہ اسے پا لے، پھر رک جائے، (تیسرا) وہ شخص جو فاقہ کا شکار ہو گیا ہو یہاں تک کہ اس کی قوم کے تین سمجھ دار افراد گواہی دیں کہ ہاں واقعی فلاں شخص فاقہ کا مارا ہوا ہے، تو اس کے لیے مانگنا جائز ہے یہاں تک کہ اس کے گزارہ کا انتظام ہو جائے، ان کے علاوہ مانگنے کی جو بھی صورت ہے حرام ہے، اے قبیصہ! اور جو کوئی مانگ کر کھاتا ہے حرام کھاتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی کسی کا قرض وغیرہ اپنے ذمہ لے لے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Qubaisah bin Mukhariq said: “I undertook a financial responsibility, then I came to the Prophet (ﷺ) and asked him (for help) concerning that. He said: ‘Hold on, Qubaisah! When we get some charity we will give you some.’ Then the Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘Qubaisah, charity is not permissible except for one of three: A man who undertakes a financial responsibility, so it is permissible for him to be given charity until he finds means to make him independent and to suffice him; a man who was stricken by calamity and his wealth was destroyed, so it is permissible for him to ask for help until he has enough to keep him going, then he should refrain from asking; and a man who is stricken with poverty and three wise men from among his own people testify that so-and-so is in desperate need, then it is permissible for him to ask for help until he finds means to make him independent and to suffice him. Asking for help in cases other than these, Qubaisah, is unlawful, and the one who takes it is consuming it unlawfully.” (Sahih)