Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Who Is The One Who Is Demanding When Asking?)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2594.
حضرت عمرو بن شعیب کے پردادا سے مروی ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”جو آدمی چالیس درہم ہونے کے باوجود مانگے تو وہ اصرار کے ساتھ (چمٹ کر) مانگنے والا ہے۔“
تشریح:
تشبیہ کا مقصد عدم جواز ہے، یعنی اس کے لیے مانگنا جائز نہیں۔ اس روایت میں چالیس درہم کو غنیٰ کی حد بتلایا گیا ہے۔ یہ اس وقت کے حالات کے مطابق ہے۔ اس میں حالات کے مطابق کمی بیشی ہو سکتی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2595
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2593
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2595
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت عمرو بن شعیب کے پردادا سے مروی ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”جو آدمی چالیس درہم ہونے کے باوجود مانگے تو وہ اصرار کے ساتھ (چمٹ کر) مانگنے والا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
تشبیہ کا مقصد عدم جواز ہے، یعنی اس کے لیے مانگنا جائز نہیں۔ اس روایت میں چالیس درہم کو غنیٰ کی حد بتلایا گیا ہے۔ یہ اس وقت کے حالات کے مطابق ہے۔ اس میں حالات کے مطابق کمی بیشی ہو سکتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس کے پاس چالیس درہم ہوں اور وہ مانگے تو وہ «ملحف» (چمٹ کر مانگنے والا) ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Amr bin Shu'aib, from his father, that his grandfather said: "The Messenger of Allah said: 'Whoever asks when he has forty Dirhams I being too demanding when asking.