Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: The Obligation of 'Umrah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2621.
حضرت عمرو بن اوس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابو رزین ؓ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے والد بہت بوڑھے ہو چکے ہیں۔ وہ حج و عمرہ بلکہ سفر تک کی طاقت نہیں رکھتے۔ آپ نے فرمایا: ”تم اپنے والد کی طرف سے حج اور عمرہ کرو۔“
تشریح:
(1) عمرے کا وجوب مختلف فیہ مسئلہ ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ اور دوسرے محدثین، مثلاً: امام شافعی اور امام احمد رحمہ اللہ حج کی طرح عمرے کو واجب سمجھتے ہیں کیونکہ اس حدیث میں حج اور عمرے کا اکٹھا ذکر ہے۔ قرآن مجید میں بھی وہ اکٹھے مذکور ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ﴾(البقرة: ۱۹۶)”حج اور عمرہ اللہ تعالیٰ کے لیے مکمل کرو۔“ لہٰذا دونوں فرض ہیں۔ مگر احناف اور مالکی حضرات عمرے کو نفل سمجھتے ہیں کیونکہ نبیﷺ نے ارکان اسلام بتاتے وقت حج کا ذکر فرمایا ہے عمرے کا نہیں۔ لیکن یہ دلیل انتہائی کمزور ہے کیونکہ دیگر بہت سے ایسے فرائض وواجبات ہیں جن کی حیثیت ارکان کی نہیں اور نہ وہ اس حدیث کے تحت ذکر ہی ہوئے ہیں جبکہ حقیقت میں وہ واجب ہی ہیں، لہٰذا اس سے ان کی عدم فرضیت یا عدم وجوب لازم نہیں آتا، نیز دونوں کے اعمال ومناسک کا بھی خاصا فرق ہے۔ جب فرق ہے تو ایک کے اس حدیث میں ذکر نہ ہونے سے کیا ہوتا ہے۔ (2) جو شخص مالی طاقت رکھتا ہو مگر جسمانی طور پر معذور ہو تو وہ کسی کو اپنی جگہ حج کے لیے بھیجے۔ اسی طرح جس شخص پر حج فرض ہو مگر ادائیگی کے بغیر فوت ہوگیا ہو تو اس کی طرف سے اس کے ورثاء حج کریں یا کسی کو بھیجیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2622
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2620
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2622
تمہید کتاب
حج ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے۔ ان ارکان کے چھوڑنے سے کفر واسلام میں امتیاز ختم ہو جاتا ہے۔ حج کے لغوی معنی قصد کرنا ہیں مگر شریعت اسلامیہ میں اس سے مراد چند معین ایام میں مخصوص طریقے اور اعمال کے ساتھ بیت اللہ کی زیارت کرنا ہے۔ حج کا مقصد بیت اللہ کی تعظیم ہے جو کہ مسلمانوں کا مرکز اور ان کی وحدت کا ضامن ہے۔ اس کی طرف تمام مسلمان قبلہ رخ ہو کر نماز پڑھتے ہیں۔ حج میں مسلمانوں کا عظیم اجتماع ہوتا ہے۔ جس کی نظیر پیش کرنے سے تمام ادیان ومذاہب قاصر ہیں۔ اس سے مسلمانوں میں باہمی ربط وتعاون، آپس میں تعارف و الفت اور محبت و مودت کے جذبات ترقی پاتے ہیں۔ ہر علاقہ وملک کے لوگ، ہر رنگ ونسل سے تعلق رکھنے والے جن کی زبانیں مختلف ہوتی ہیں مگر دلی جذبات ایک سے ہوتے ہیں، ان کی بود وباش مختلف، مگر ان کی زبان پر ایک ہی ترانہ ہوتا ہے۔ حج کے ارکان کی ادائیگی کے وقت ان کا لباس بھی ایک ہی ہوتا ہے۔ نہ دنگا فساد، نہ لڑائی جھگڑا، نہ گالم گلوچ۔ حج زندگی میں ایک دفعہ فرض ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرضیت حج کے بعد ایک ہی حج ادا فرمایا تھا۔ حج کی ادائیگی میں حضرت ابراہیمؑ، ان کی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل ؑکی یاد تازہ ہوتی ہے جو سب سے پہلے اس عبادت کو ادا کرنے والے تھے۔ بیت اللہ بھی انھی دو عظیم شخصیات کا تعمیر کردہ ہے۔ حج کا اعلان بھی حضرت ابراہیم ؑ کی زبانی ہوا۔ حج خلوص، للہیت، قربانی، صبر اور مسلمانوں کی شان وشوکت کا عظيم مظہر ہے جس کی مثال ناپید ہے۔
حضرت عمرو بن اوس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابو رزین ؓ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے والد بہت بوڑھے ہو چکے ہیں۔ وہ حج و عمرہ بلکہ سفر تک کی طاقت نہیں رکھتے۔ آپ نے فرمایا: ”تم اپنے والد کی طرف سے حج اور عمرہ کرو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) عمرے کا وجوب مختلف فیہ مسئلہ ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ اور دوسرے محدثین، مثلاً: امام شافعی اور امام احمد رحمہ اللہ حج کی طرح عمرے کو واجب سمجھتے ہیں کیونکہ اس حدیث میں حج اور عمرے کا اکٹھا ذکر ہے۔ قرآن مجید میں بھی وہ اکٹھے مذکور ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ﴾(البقرة: ۱۹۶)”حج اور عمرہ اللہ تعالیٰ کے لیے مکمل کرو۔“ لہٰذا دونوں فرض ہیں۔ مگر احناف اور مالکی حضرات عمرے کو نفل سمجھتے ہیں کیونکہ نبیﷺ نے ارکان اسلام بتاتے وقت حج کا ذکر فرمایا ہے عمرے کا نہیں۔ لیکن یہ دلیل انتہائی کمزور ہے کیونکہ دیگر بہت سے ایسے فرائض وواجبات ہیں جن کی حیثیت ارکان کی نہیں اور نہ وہ اس حدیث کے تحت ذکر ہی ہوئے ہیں جبکہ حقیقت میں وہ واجب ہی ہیں، لہٰذا اس سے ان کی عدم فرضیت یا عدم وجوب لازم نہیں آتا، نیز دونوں کے اعمال ومناسک کا بھی خاصا فرق ہے۔ جب فرق ہے تو ایک کے اس حدیث میں ذکر نہ ہونے سے کیا ہوتا ہے۔ (2) جو شخص مالی طاقت رکھتا ہو مگر جسمانی طور پر معذور ہو تو وہ کسی کو اپنی جگہ حج کے لیے بھیجے۔ اسی طرح جس شخص پر حج فرض ہو مگر ادائیگی کے بغیر فوت ہوگیا ہو تو اس کی طرف سے اس کے ورثاء حج کریں یا کسی کو بھیجیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابورزین رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے والد بوڑھے ہیں، نہ حج کر سکتے ہیں نہ عمرہ اور نہ سفر؟ آپ نے فرمایا: ”اپنے والد کی طرف سے تم حج و عمرہ کر لو۔“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس میں بطور نیابت حج و عمرہ کرنے کی تاکید ہے لیکن نائب کے لیے ضروری ہے کہ پہلے وہ خود حج کر چکا ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Razin that he said: “Messenger of Allah (ﷺ), my father is an old man and he cannot perform Hajj or ‘Umrah, nor can he travel.” He said: “Perform Hajj and ‘Umrah on behalf of your father.” (Sahih)