Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: It is Disliked for the Muhrim to Wear Dyed Clothes.)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2712.
حضرت محمد (باقر) ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت جابر ؓ کے پاس حاضر ہوئے اور ہم نے ان سے نبیﷺ کے حج (حجۃ الوداع) کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا: ”اگر مجھے اس بات کا پہلے پتا چل جاتا جس کا بعد میں پتا چلا ہے تو میں قربانی کے جانور ساتھ نہ لاتا اور حج کے بجائے عمرے کا احرام باندھتا، لہٰذا جس شخص کے ساتھ قربانی کا جانور نہیں، وہ حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں بدل دلے۔“ حضرت علی ؓ بھی یمن سے قربانی کے جانور لے کر آئے تھے اور رسول اللہﷺ مدینہ منورہ سے قربانی کے جانور لائے تھے۔ حضرت فاطمہؓ نے رنگ دار کپڑے پہنے ہوئے تھے اور سرمہ لگا رکھا تھا۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا: میں بھڑکانے (غصہ دلانے) کے لیے رسول اللہﷺ کے پاس مسئلہ پوچھنے گیا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! فاطمہ نے رنگ دار کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور سرمہ لگا رکھا ہے اور وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے ان کاموں کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اس نے سچ کہا۔ وہ سچ کہتی ہے، وہ سچی ہے، میں نے ہی اسے حکم دیا ہے۔“
تشریح:
(1) ”اگر مجھے پہلے پتا چل جاتا۔“ روایت کا ابتدائی حصہ حذف ہے۔ دراصل حجۃ الوداع میں رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حج ہی کا احرام باندھا تھا، مگر پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم آگیا کہ حج کے دنوں میں عمرہ بھی کیا جائے۔ دور جاہلیت میں لوگ حج کے دنوں میں عمرہ کرنے کو بہت بڑا گناہ سمجھتے تھے۔ آپ نے اعلان عام فرمایا کہ جن لوگوں کے ساتھ قربانی کا جانور نہیں، وہ حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں بدل لیں اور عمرہ کر کے حلال ہو جائیں۔ حج کے لیے بعد میں نیا احرام باندھیں۔ قربانی کے جانور ساتھ لانے والے چونکہ قربانی ذبح ہونے سے پہلے حلال نہیں ہو سکتے تھے، اس لیے انھیں ہدایت کی گئی کہ وہ عمرہ تو کریں مگر حج کا احرام قائم رکھیں اور قربانی ذبح ہونے کے بعد حلال ہوں۔ رسول اللہﷺ کے ساتھ بھی قربانی کے جانور تھے، لہٰذا آپ عمرہ کر کے حلال نہ ہوئے۔ دوسرے لوگوں کے لیے جن کے پاس قربانیاں نہیں تھیں، عمرے کے بعد حلال ہونا بڑا شاق تھا کیونکہ ان کی اصل نیت حج کی تھی۔ حج کے دن بھی قریب تھے۔ صرف تین دن کا فاصلہ تھا، لہٰذا انھیں درمیان میں حلال ہونا پسند نہ تھا۔ اسی لیے آپ نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے۔ (2) ”جو بعد میں پتا چلا۔“ یعنی عمرے کا حکم۔ (3) حضرت فاطمہؓ کے ساتھ قربانی کے جانور نہیں تھے، لہٰذا وہ عمرہ کر کے حلال ہوگئیں۔ انھوں نے رنگ دار کپڑے پہنے اور سرمہ لگایا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ چونکہ قربانی کے جانور تھے، لہٰذا وہ حلال نہ ہوئے، اس لیے انھیں اشکال پیدا ہوا۔ (4) امام نسائی رحمہ اللہ کا استدلال یہ ہے کہ اگر احرام کی حالت میں رنگ دار کپڑے درست ہوتے یا سرمہ لگانا جائز ہوتا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اعتراض کیوں کرتے؟ معلوم ہوا احرام کی حالت میں رنگ دار کپڑے یا سرمہ جائز نہیں، البتہ رنگ دار کپڑوں سے مراد وہ ہیں جنھیں بعد میں رنگا گیا ہو یا زعفران وغیرہ سے رنگے ہوں، ورنہ پہلے سے رنگ والے کپڑے عورت احرام میں استعمال کر سکتی ہے۔ ان کپڑوں کی کراہت کی وجہ زینت یا خوشبو ہے۔ (5) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ کسی دینی نقصان پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کلمہ ”لَوْ“ کہنا جائز ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث میں جو ممانعت وارد ہے وہ دنیاوی امور کے متعلق ہے۔ (6) اپنے اہل خانہ اور بال بچوں کی خوب نگرانی کرنی چاہیے اور خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں وہ کسی خلاف شرع کام کے مرتکب تو نہیں ہو رہے۔ (7) اگر ممکن ہو تو قربانی کے جانور دور دراز علاقے سے لائے جا سکتے ہیں۔ یہ مشروع ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔
حضرت محمد (باقر) ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت جابر ؓ کے پاس حاضر ہوئے اور ہم نے ان سے نبیﷺ کے حج (حجۃ الوداع) کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا: ”اگر مجھے اس بات کا پہلے پتا چل جاتا جس کا بعد میں پتا چلا ہے تو میں قربانی کے جانور ساتھ نہ لاتا اور حج کے بجائے عمرے کا احرام باندھتا، لہٰذا جس شخص کے ساتھ قربانی کا جانور نہیں، وہ حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں بدل دلے۔“ حضرت علی ؓ بھی یمن سے قربانی کے جانور لے کر آئے تھے اور رسول اللہﷺ مدینہ منورہ سے قربانی کے جانور لائے تھے۔ حضرت فاطمہؓ نے رنگ دار کپڑے پہنے ہوئے تھے اور سرمہ لگا رکھا تھا۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا: میں بھڑکانے (غصہ دلانے) کے لیے رسول اللہﷺ کے پاس مسئلہ پوچھنے گیا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! فاطمہ نے رنگ دار کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور سرمہ لگا رکھا ہے اور وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے ان کاموں کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اس نے سچ کہا۔ وہ سچ کہتی ہے، وہ سچی ہے، میں نے ہی اسے حکم دیا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”اگر مجھے پہلے پتا چل جاتا۔“ روایت کا ابتدائی حصہ حذف ہے۔ دراصل حجۃ الوداع میں رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حج ہی کا احرام باندھا تھا، مگر پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم آگیا کہ حج کے دنوں میں عمرہ بھی کیا جائے۔ دور جاہلیت میں لوگ حج کے دنوں میں عمرہ کرنے کو بہت بڑا گناہ سمجھتے تھے۔ آپ نے اعلان عام فرمایا کہ جن لوگوں کے ساتھ قربانی کا جانور نہیں، وہ حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں بدل لیں اور عمرہ کر کے حلال ہو جائیں۔ حج کے لیے بعد میں نیا احرام باندھیں۔ قربانی کے جانور ساتھ لانے والے چونکہ قربانی ذبح ہونے سے پہلے حلال نہیں ہو سکتے تھے، اس لیے انھیں ہدایت کی گئی کہ وہ عمرہ تو کریں مگر حج کا احرام قائم رکھیں اور قربانی ذبح ہونے کے بعد حلال ہوں۔ رسول اللہﷺ کے ساتھ بھی قربانی کے جانور تھے، لہٰذا آپ عمرہ کر کے حلال نہ ہوئے۔ دوسرے لوگوں کے لیے جن کے پاس قربانیاں نہیں تھیں، عمرے کے بعد حلال ہونا بڑا شاق تھا کیونکہ ان کی اصل نیت حج کی تھی۔ حج کے دن بھی قریب تھے۔ صرف تین دن کا فاصلہ تھا، لہٰذا انھیں درمیان میں حلال ہونا پسند نہ تھا۔ اسی لیے آپ نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے۔ (2) ”جو بعد میں پتا چلا۔“ یعنی عمرے کا حکم۔ (3) حضرت فاطمہؓ کے ساتھ قربانی کے جانور نہیں تھے، لہٰذا وہ عمرہ کر کے حلال ہوگئیں۔ انھوں نے رنگ دار کپڑے پہنے اور سرمہ لگایا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ چونکہ قربانی کے جانور تھے، لہٰذا وہ حلال نہ ہوئے، اس لیے انھیں اشکال پیدا ہوا۔ (4) امام نسائی رحمہ اللہ کا استدلال یہ ہے کہ اگر احرام کی حالت میں رنگ دار کپڑے درست ہوتے یا سرمہ لگانا جائز ہوتا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اعتراض کیوں کرتے؟ معلوم ہوا احرام کی حالت میں رنگ دار کپڑے یا سرمہ جائز نہیں، البتہ رنگ دار کپڑوں سے مراد وہ ہیں جنھیں بعد میں رنگا گیا ہو یا زعفران وغیرہ سے رنگے ہوں، ورنہ پہلے سے رنگ والے کپڑے عورت احرام میں استعمال کر سکتی ہے۔ ان کپڑوں کی کراہت کی وجہ زینت یا خوشبو ہے۔ (5) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ کسی دینی نقصان پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کلمہ ”لَوْ“ کہنا جائز ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث میں جو ممانعت وارد ہے وہ دنیاوی امور کے متعلق ہے۔ (6) اپنے اہل خانہ اور بال بچوں کی خوب نگرانی کرنی چاہیے اور خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں وہ کسی خلاف شرع کام کے مرتکب تو نہیں ہو رہے۔ (7) اگر ممکن ہو تو قربانی کے جانور دور دراز علاقے سے لائے جا سکتے ہیں۔ یہ مشروع ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
محمد الباقر کہتے ہیں کہ ہم جابر (جابر بن عبداللہ ؓ) کے پاس آئے، اور ان سے نبی اکرم ﷺ کے حج کے متعلق پوچھا تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر مجھے پہلے معلوم ہو گیا ہوتا جو اب معلوم ہوا تو میں ہدی (کا جانور) لے کر نہ آتا اور اسے عمرہ میں تبدیل کر دیتا (اور طواف و سعی کر کے احرام کھول دیتا) تو جس کے پاس ہدی نہ ہو وہ احرام کھول ڈالے، اور اسے عمرہ قرار دے لے“ (اسی موقع پر) علی ؓ یمن سے ہدی (کے اونٹ) لے کر آئے اور رسول اللہ ﷺ مدینہ سے لے کر گئے۔ اور فاطمہ ؓ نے جب رنگین کپڑے پہن لیے اور سرمہ لگا لیا علی ؓ کہتے ہیں کہ میں تو غصہ میں رسول اللہ ﷺ سے فتویٰ پوچھنے گیا۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! فاطمہ نے تو رنگین کپڑے پہن رکھے ہیں اور سرمہ لگا رکھا ہے اور کہتی ہیں: میرے ابا جان ﷺ نے مجھے اس کا حکم دیا ہے؟، آپ نے فرمایا: ”اس نے سچ کہا، اس نے، سچ کہا، میں نے ہی اسے حکم دیا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn ‘Abbas that a man fell from his mount and it trampled him. The Messenger of Allah (ﷺ) said: “Wash him with water and lotus leaves, and he should be shrouded in two cloths, leaving his head and face bare, for he will be raised on the Day of Resurrection reciting the Talbiyah.” (Sahih)