باب: دشمن کی وجہ سے جو شخص (حج سے) روک دیا جائے تو؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: One Who Is Prevented From Completing Hajj By The Enemy)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2859.
حضرت عبداللہ بن عبداللہ اور حضرت سالم بن عبداللہ نے (اپنے والد) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے گفتگو کی، یہ اس وقت کی بات ہے جب (حجاج کا) لشکر حضرت ابن زبیر ؓ کا محاصرہ کر چکا تھا۔ ابھی انھیں شہید نہیں کیا گیا تھا۔ وہ دونوں کہنے لگے کہ آپ اس سال حج کو نہ جائیں تو آپ کو کوئی نقصان نہیں۔ ہمیں خطرہ ہے کہ ہمیں بیت اللہ تک پہنچنے میں رکاوٹ پڑ جائے گی۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا: ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ (عمرہ کرنے کے لیے) گئے تھے۔ کفار قریش نے بیت اللہ تک نہ جانے دیا تو رسول اللہﷺ نے اپنی قربانی ذبح کی اور سر منڈوا دیا۔ میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے عمرے کا احرام باندھ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا تو میں جاؤں گا۔ اگر میرے اور بیت اللہ کے درمیان راستہ کھلا رہا تو میں طواف (یعنی عمرہ) کر لوں گا اور اگر رکاوٹ پڑ گئی تو میں وہی کچھ کروں گا جو میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ کیا تھا۔ پھر کچھ دیر چلنے کے بعد کہنے لگے عمرہ اور حج دونوں کا معاملہ ایک ہی ہے، لہٰذا میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے عمرے کے ساتھ حج کا احرام بھی باندھ لیا ہے۔ تو آپ ان سے حلال نہیں ہوئے حتیٰ کہ قربانیوں والے دن قربانی ذبح کی اور پھر حلال ہوئے۔
تشریح:
(1) حجاج اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے متعلق تفصیل کے لیے دیکھیے حدیث ۲۷۴۷ کا فائدہ: ۱۔ (2) ”دونوں کا معاملہ ایک ہے“ یعنی اگر بیت اللہ تک نہ پہنچ سکے اور رکاوٹ پڑ گئی تو پھر، خواہ احرام عمرے کا ہو یا حج کا یا دونوں کا، حلال ہونے کا طریقہ ایک ہی ہے۔ اگر رکاوٹ نہ پڑی تو جس طرح عمرہ ہو سکتا ہے، حج بھی ہو سکے گا، لہٰذا عمرے کے ساتھ حج کا احرام باندھنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ (3) احصار سے مراد ہے کہ محرم بیت اللہ تک نہ پہنچ سکے، خواہ دشمن رکاوٹ ڈال دے جیسے عمرہ حدیبیہ میں ہوا یا کوئی مرض وغیرہ انسان کو لاچار کر دے کہ وہ سفر جاری نہ رکھ سکے۔ ہر دو صورتوں میں اگر ساتھ قربانی کا جانور ہو تو اسے ذبح کر دیا جائے اور اگر اسے حرم بھیجا جا سکتا ہو تو بھیج دیا جائے۔ جانور کے ذبح کرنے کے بعد وہ حجامت وغیرہ کروائے اور حلال ہو جائے۔ اگر وہ حج فرض تھا تو آئندہ پھر کرے، بشرطیکہ استطاعت رکھتا ہو، ورنہ معاف ہے۔ یہی حکم عمرے کا ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ اگر وہ عمرے کا احرام تھا یا نفل حج کا تو دوبارہ قضا وغیرہ کی ضرورت نہیں جیسے عمرہ حدیبیہ میں ہوا۔ نبیﷺ نے کسی کو پابند نہیں فرمایا کہ بعد میں اس کی قضا دیں۔ لیکن راجح موقف کے مطابق عمرے کی ادائیگی بھی واجب ہے، اس لیے اگر کسی کا واجب عمرہ رہ جائے یا اس کی تکمیل نہ ہو پائے تو آئندہ سال اسے استطاعت کی صورت میں اس کی قضا ادا کرنا ہوگی۔ رہا یہ موقف کہ مطلقاً عمرے کی دوبارہ قضا ضروری نہیں اور دلیل میں عمرہ حدیبیہ سے استدلال کرنا، تو یہ محل نظر ہے۔ اولاً: اس لیے کہ آئندہ سال عمرہ کرنے کا معاہدہ ہو چکا تھا، لہٰذا مزید حکم کی ضرورت ہی پیش نہ آئی۔ ثانیاً: راجح موقف کے مطابق حج کی فرضیت تو ۹ہجری میں ہوئی تو اس سے قبل عمرے کے وجوب کے کیا معنیٰ؟ اس لیے رسول اللہﷺ نے حکماً کسی کو پابند نہیں فرمایا۔ واللہ أعلم
حضرت عبداللہ بن عبداللہ اور حضرت سالم بن عبداللہ نے (اپنے والد) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے گفتگو کی، یہ اس وقت کی بات ہے جب (حجاج کا) لشکر حضرت ابن زبیر ؓ کا محاصرہ کر چکا تھا۔ ابھی انھیں شہید نہیں کیا گیا تھا۔ وہ دونوں کہنے لگے کہ آپ اس سال حج کو نہ جائیں تو آپ کو کوئی نقصان نہیں۔ ہمیں خطرہ ہے کہ ہمیں بیت اللہ تک پہنچنے میں رکاوٹ پڑ جائے گی۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا: ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ (عمرہ کرنے کے لیے) گئے تھے۔ کفار قریش نے بیت اللہ تک نہ جانے دیا تو رسول اللہﷺ نے اپنی قربانی ذبح کی اور سر منڈوا دیا۔ میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے عمرے کا احرام باندھ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا تو میں جاؤں گا۔ اگر میرے اور بیت اللہ کے درمیان راستہ کھلا رہا تو میں طواف (یعنی عمرہ) کر لوں گا اور اگر رکاوٹ پڑ گئی تو میں وہی کچھ کروں گا جو میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ کیا تھا۔ پھر کچھ دیر چلنے کے بعد کہنے لگے عمرہ اور حج دونوں کا معاملہ ایک ہی ہے، لہٰذا میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے عمرے کے ساتھ حج کا احرام بھی باندھ لیا ہے۔ تو آپ ان سے حلال نہیں ہوئے حتیٰ کہ قربانیوں والے دن قربانی ذبح کی اور پھر حلال ہوئے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حجاج اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے متعلق تفصیل کے لیے دیکھیے حدیث ۲۷۴۷ کا فائدہ: ۱۔ (2) ”دونوں کا معاملہ ایک ہے“ یعنی اگر بیت اللہ تک نہ پہنچ سکے اور رکاوٹ پڑ گئی تو پھر، خواہ احرام عمرے کا ہو یا حج کا یا دونوں کا، حلال ہونے کا طریقہ ایک ہی ہے۔ اگر رکاوٹ نہ پڑی تو جس طرح عمرہ ہو سکتا ہے، حج بھی ہو سکے گا، لہٰذا عمرے کے ساتھ حج کا احرام باندھنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ (3) احصار سے مراد ہے کہ محرم بیت اللہ تک نہ پہنچ سکے، خواہ دشمن رکاوٹ ڈال دے جیسے عمرہ حدیبیہ میں ہوا یا کوئی مرض وغیرہ انسان کو لاچار کر دے کہ وہ سفر جاری نہ رکھ سکے۔ ہر دو صورتوں میں اگر ساتھ قربانی کا جانور ہو تو اسے ذبح کر دیا جائے اور اگر اسے حرم بھیجا جا سکتا ہو تو بھیج دیا جائے۔ جانور کے ذبح کرنے کے بعد وہ حجامت وغیرہ کروائے اور حلال ہو جائے۔ اگر وہ حج فرض تھا تو آئندہ پھر کرے، بشرطیکہ استطاعت رکھتا ہو، ورنہ معاف ہے۔ یہی حکم عمرے کا ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ اگر وہ عمرے کا احرام تھا یا نفل حج کا تو دوبارہ قضا وغیرہ کی ضرورت نہیں جیسے عمرہ حدیبیہ میں ہوا۔ نبیﷺ نے کسی کو پابند نہیں فرمایا کہ بعد میں اس کی قضا دیں۔ لیکن راجح موقف کے مطابق عمرے کی ادائیگی بھی واجب ہے، اس لیے اگر کسی کا واجب عمرہ رہ جائے یا اس کی تکمیل نہ ہو پائے تو آئندہ سال اسے استطاعت کی صورت میں اس کی قضا ادا کرنا ہوگی۔ رہا یہ موقف کہ مطلقاً عمرے کی دوبارہ قضا ضروری نہیں اور دلیل میں عمرہ حدیبیہ سے استدلال کرنا، تو یہ محل نظر ہے۔ اولاً: اس لیے کہ آئندہ سال عمرہ کرنے کا معاہدہ ہو چکا تھا، لہٰذا مزید حکم کی ضرورت ہی پیش نہ آئی۔ ثانیاً: راجح موقف کے مطابق حج کی فرضیت تو ۹ہجری میں ہوئی تو اس سے قبل عمرے کے وجوب کے کیا معنیٰ؟ اس لیے رسول اللہﷺ نے حکماً کسی کو پابند نہیں فرمایا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عبداللہ اور سالم بن عبداللہ بن عمر دونوں نے انہیں خبر دی کہ ان دونوں نے جب حجاج بن یوسف کے لشکر نے ابن زبیر ؓ پر چڑھائی کی تو ان کے قتل کئے جانے سے پہلے عبداللہ بن عمر ؓ سے بات کی ان دونوں نے کہا: امسال آپ حج کے لیے نہ جائیں تو کوئی نقصان نہیں، ہمیں اندیشہ ہے کہ ہمارے اور بیت اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہ کھڑی کر دی جائے، تو انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے، تو کفار قریش بیت اللہ تک پہنچنے میں حائل ہو گئے، تو آپ ﷺ نے (وہیں) اپنی ہدی کا نحر کر لیا اور سر منڈا لیا (اور حلال ہو گئے) سنو! میں تمہیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے عمرہ (اپنے اوپر) واجب کر لیا ہے۔ ان شاءاللہ میں جاؤں گا اگر مجھے بیت اللہ تک پہنچنے سے نہ روکا گیا تو میں طواف کروں گا، اور اگر میرے اور بیت اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ پیش آ گئی تو میں وہی کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے کیا اور میں آپ کے ساتھ تھا۔ پھر وہ تھوڑی دیر چلتے رہے۔ پھر کہنے لگے بلاشبہ حج و عمرہ دونوں کا معاملہ ایک جیسا ہے، میں تمہیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے عمرہ کے ساتھ حج بھی اپنے اوپر واجب کر لیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے حج و عمرہ دونوں میں سے کسی سے بھی احرام نہیں کھولا۔ یہاں تک کہ یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) کو احرام کھولا، اور ہدی کی قربانی کی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Nafi’ that ‘Abdullah bin ‘Abdullah and Salim bin ‘Abdullah told him, that they spoke to ‘Abdullah bin ‘Umar when the army besieged Ibn Az Zubair before he was killed. They said: “It does not matter if you do not perform Hajj this year; we are afraid lest we are prevented from reaching the House.” He said: We went out with the Messenger of Allah (ﷺ) and the disbelievers of the Quraish prevented us from reaching the House. So the Messenger of Allah (ﷺ) slaughtered his Hadi and shaved his head. I ask you to bear witness that I have resolved to perform ‘Umrah. If Allah wills I will set out and if I am allowed to reach the House I will circumambulate it, and if I am prevented from reaching the House I will do what the Messenger of Allah (ﷺ) did when I was with him.” Then he traveled for a while, then he said: “They are both the same. I ask you to bear witness that I have resolved to perform Hajj as well as ‘Umrah.” And he did not exit Ihram for either until he exited Ihram on the Day of Sacrifice and offered his Hadi. (Sahih)