Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: How to kiss it)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2938.
حضرت حنظلہ سے منقول ہے کہ میں نے حضرت طاؤس کو حجر اسود کے پاس سے گزرتے دیکھا۔ اگر آپ وہاں بھیڑ محسوس فرماتے تو (اشارہ کر کے) گزر جاتے اور بھیڑ نہ کرتے۔ اگر جگہ خالی دیکھتے تو اسے تین بار بوسہ دیتے، پھر فرمایا: میں نے حضرت ابن عباس ؓ کو ایسے کرتے دیکھا ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے، پھر حضرت عمر ؓ نے فرمایا: (اے حجر اسود!) بلا شبہ تو ایک پتھر ہے۔ نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان۔ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ میں نے رسول اللہﷺ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے دیکھا ہے تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا، پھر حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میں نے رسول اللہﷺ کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حجر اسود کو بوسہ دینا ضروری نہیں۔ اگر بھیڑ ہو تو دھکم پیل کی بجائے اشارہ کر کے گزر جائے۔ اگر آسانی سے بوسہ دے سکے تو بوسہ دے دے۔ یہ حج یا طواف کا رکن نہیں، لہٰذا بوسہ کے لیے مار دھاڑ کرنا یا دھکم پیل کرنا شریعت کے خلاف ہے۔ ایسا نہ ہو کہ انسان گناہوں کی معافی کی بجائے گناہوں کی گٹھڑی اٹھا کر رخصت ہو۔ (2) یہ بھی معلوم ہوا کہ تین دفعہ بوسہ دینا مسنون ہے۔ مزید دیکھیے، حدیث: ۲۹۳۹ کا فائدہ نمبر:۱۔ (3) ”تو ایک پتھر ہے۔“ باوجود جنت میں سے ہونے کے بہر صورت ہے تو پتھر ہی، معبود نہیں۔ آپ نے یہ اس لیے فرمایا کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ تمام بت توڑ کر ایک بت باقی رکھ لیا۔ عوام الناس یا نو مسلم حضرات ایسا گمان کر سکتے تھے۔ (4) ”نفع دے سکتا ہے نہ نقصان“ حدیث میں ہے کہ حجر اسود قیامت کے روز آئے گا۔ اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے دیکھے گا اور زبان ہوگی جس سے بولے گا اور جس جس نے بھی اسے حق کے ساتھ چھوا ہوگا اس کے حق میں گواہی دے گا۔ دیکھیے: (مناسك الحج والعمرة، للألباني، ص: ۲۱) یہ بھی تو نفع ہی ہے؟ حالانکہ اس قسم کی گواہی تو دنیا کی ہر چیز دے گی، مثلاً: جہاں تک مؤذن کی آواز جاتی ہے، وہاں تک ہر جن وانس، حجر وشجر اس کے لیے گواہی دیں گے، تو کیا ہر جن وانس شجر وحجر نافع اور ضار بن گیا؟ ہرگز نہیں! یہ گواہی تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ان چیزوں میں قوت گویائی پیدا فرمائے گا۔ اس کا نفع نقصان سے کیا تعلق ہے؟ یہ تو صرف گواہی دیں گے۔ نفع ونقصان اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، ورنہ یہ چیزیں گواہی دینے ہی پر کیوں اکتفا کرتیں؟ بلکہ نفع نقصان دیتیں۔
حضرت حنظلہ سے منقول ہے کہ میں نے حضرت طاؤس کو حجر اسود کے پاس سے گزرتے دیکھا۔ اگر آپ وہاں بھیڑ محسوس فرماتے تو (اشارہ کر کے) گزر جاتے اور بھیڑ نہ کرتے۔ اگر جگہ خالی دیکھتے تو اسے تین بار بوسہ دیتے، پھر فرمایا: میں نے حضرت ابن عباس ؓ کو ایسے کرتے دیکھا ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے، پھر حضرت عمر ؓ نے فرمایا: (اے حجر اسود!) بلا شبہ تو ایک پتھر ہے۔ نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان۔ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ میں نے رسول اللہﷺ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے دیکھا ہے تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا، پھر حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میں نے رسول اللہﷺ کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حجر اسود کو بوسہ دینا ضروری نہیں۔ اگر بھیڑ ہو تو دھکم پیل کی بجائے اشارہ کر کے گزر جائے۔ اگر آسانی سے بوسہ دے سکے تو بوسہ دے دے۔ یہ حج یا طواف کا رکن نہیں، لہٰذا بوسہ کے لیے مار دھاڑ کرنا یا دھکم پیل کرنا شریعت کے خلاف ہے۔ ایسا نہ ہو کہ انسان گناہوں کی معافی کی بجائے گناہوں کی گٹھڑی اٹھا کر رخصت ہو۔ (2) یہ بھی معلوم ہوا کہ تین دفعہ بوسہ دینا مسنون ہے۔ مزید دیکھیے، حدیث: ۲۹۳۹ کا فائدہ نمبر:۱۔ (3) ”تو ایک پتھر ہے۔“ باوجود جنت میں سے ہونے کے بہر صورت ہے تو پتھر ہی، معبود نہیں۔ آپ نے یہ اس لیے فرمایا کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ تمام بت توڑ کر ایک بت باقی رکھ لیا۔ عوام الناس یا نو مسلم حضرات ایسا گمان کر سکتے تھے۔ (4) ”نفع دے سکتا ہے نہ نقصان“ حدیث میں ہے کہ حجر اسود قیامت کے روز آئے گا۔ اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے دیکھے گا اور زبان ہوگی جس سے بولے گا اور جس جس نے بھی اسے حق کے ساتھ چھوا ہوگا اس کے حق میں گواہی دے گا۔ دیکھیے: (مناسك الحج والعمرة، للألباني، ص: ۲۱) یہ بھی تو نفع ہی ہے؟ حالانکہ اس قسم کی گواہی تو دنیا کی ہر چیز دے گی، مثلاً: جہاں تک مؤذن کی آواز جاتی ہے، وہاں تک ہر جن وانس، حجر وشجر اس کے لیے گواہی دیں گے، تو کیا ہر جن وانس شجر وحجر نافع اور ضار بن گیا؟ ہرگز نہیں! یہ گواہی تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ان چیزوں میں قوت گویائی پیدا فرمائے گا۔ اس کا نفع نقصان سے کیا تعلق ہے؟ یہ تو صرف گواہی دیں گے۔ نفع ونقصان اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، ورنہ یہ چیزیں گواہی دینے ہی پر کیوں اکتفا کرتیں؟ بلکہ نفع نقصان دیتیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حنظلہ کہتے ہیں کہ میں نے طاؤس کو دیکھا وہ رکن (یعنی حجر اسود) سے گزرتے، اگر وہاں بھیڑ پاتے تو گزر جاتے کسی سے مزاحمت نہ کرتے، اور اگر خالی پاتے تو اسے تین بار بوسہ لیتے، پھر کہتے: میں نے ابن عباس ؓ کو ایسا ہی کرتے دیکھا۔ اور ابن عباس ؓ کہتے ہیں: میں نے عمر بن خطاب ؓ کو دیکھا ہے انہوں نے اسی طرح کیا، پھر کہا: بلاشبہ تو پتھر ہے، تو نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان، اور اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو تجھے بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ لیتا پھر عمر ؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Hanzalah said: “I saw Tawus pass by the Corner. If he saw it was crowded, he would pass by and he would not push his way in. And if he saw it was free, he would kiss it three times, then he said: ‘I saw Ibn ‘Abbas doing that. Ibn ‘Abbas said: I saw ‘Umar bin Al-Khattab (RA) doing that, then he said: You are just a stone that can neither cause harm or bring benefit; were it not that I saw the Messenger of Allah (ﷺ) kissing you I would not have kissed you.’ Then ‘Umar said: ‘I saw the Messenger of Allah (ﷺ) doing that.” (Sahih)