باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان:’’ہر مسجد جاتے وقت زینت اختیار کرو۔‘‘ کی تفسیر
)
Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: The saying of Allah, The Mighty And Sublime: "Take Your Adornment To Every Masjid")
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2957.
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر ؓ نے حجۃ الوداع سے قبل اس حج میں جس میں رسول اللہﷺ نے انھیں امیر حج مقرر فرمایا تھا، مجھے کچھ اور لوگوں کے ساتھ یہ اعلان کرنے کے لیے بھیجا کہ خبردار! اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کرنے نہیں آئے گا اور نہ کوئی ننگا شخص بیت اللہ کا طواف کر سکے گا۔
تشریح:
یہ ۹ ہجری کی بات ہے۔ اگرچہ مکہ مکرمہ ۸ ہجری کے حج سے قبل فتح ہو چکا تھا مگر اس سال نہ تو رسول اللہﷺ نے خود حج کیا اور نہ کسی کو امیر حج مقرر فرمایا بلکہ آپ کی طرف سے مکہ مکرمہ کے گورنر حضرت عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں حج ہوا لیکن یہ حج سابقہ طریقے کے مطابق کیا گیا کیونکہ ابھی حج کے بارے میں اسلامی تعلیمات کی فصیل نازل نہیں ہوئی تھی بلکہ بہت سے محققین کے قول کے مطابق حج کی فرضیت ہی ۹ ہجری میں نازل ہوئی۔ ۹ ہجری میں نبیﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنا کر بھیجا۔ مسلمانوں نے ان کی سرکردگی میں اسلامی طریقے کے مطابق حج کیا مگر اس سال کافر بھی بڑی تعداد میں حج کرنے آئے تھے۔ انھوں نے اپنے طریقے کے مطابق حج کیا۔ نبیﷺ کے حکم کے مطابق منیٰ میں جگہ جگہ اعلانات کر دیئے گئے کہ آئندہ کوئی مشرک حج کرنے نہ آئے۔ ۱۰ ہجری میں رسول اللہﷺ بنفس نفیس تشریف لے گئے۔ تقریباً تمام مسلمان بھی موجود تھے۔ آپ نے خالص اسلامی طریقے کے مطابق حج کروایا۔ اس سال کوئی مشرک موجود نہ تھا۔ یہ نبیﷺ کی زندگی کا بھی آخری سال تھا۔ تین ماہ بعد آپ اپنے ”رفیق اعلیٰ“ سے جا ملے۔ فداہ نفسي وروحي وابي وامي۔
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر ؓ نے حجۃ الوداع سے قبل اس حج میں جس میں رسول اللہﷺ نے انھیں امیر حج مقرر فرمایا تھا، مجھے کچھ اور لوگوں کے ساتھ یہ اعلان کرنے کے لیے بھیجا کہ خبردار! اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کرنے نہیں آئے گا اور نہ کوئی ننگا شخص بیت اللہ کا طواف کر سکے گا۔
حدیث حاشیہ:
یہ ۹ ہجری کی بات ہے۔ اگرچہ مکہ مکرمہ ۸ ہجری کے حج سے قبل فتح ہو چکا تھا مگر اس سال نہ تو رسول اللہﷺ نے خود حج کیا اور نہ کسی کو امیر حج مقرر فرمایا بلکہ آپ کی طرف سے مکہ مکرمہ کے گورنر حضرت عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں حج ہوا لیکن یہ حج سابقہ طریقے کے مطابق کیا گیا کیونکہ ابھی حج کے بارے میں اسلامی تعلیمات کی فصیل نازل نہیں ہوئی تھی بلکہ بہت سے محققین کے قول کے مطابق حج کی فرضیت ہی ۹ ہجری میں نازل ہوئی۔ ۹ ہجری میں نبیﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنا کر بھیجا۔ مسلمانوں نے ان کی سرکردگی میں اسلامی طریقے کے مطابق حج کیا مگر اس سال کافر بھی بڑی تعداد میں حج کرنے آئے تھے۔ انھوں نے اپنے طریقے کے مطابق حج کیا۔ نبیﷺ کے حکم کے مطابق منیٰ میں جگہ جگہ اعلانات کر دیئے گئے کہ آئندہ کوئی مشرک حج کرنے نہ آئے۔ ۱۰ ہجری میں رسول اللہﷺ بنفس نفیس تشریف لے گئے۔ تقریباً تمام مسلمان بھی موجود تھے۔ آپ نے خالص اسلامی طریقے کے مطابق حج کروایا۔ اس سال کوئی مشرک موجود نہ تھا۔ یہ نبیﷺ کی زندگی کا بھی آخری سال تھا۔ تین ماہ بعد آپ اپنے ”رفیق اعلیٰ“ سے جا ملے۔ فداہ نفسي وروحي وابي وامي۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ابوبکر ؓ نے انہیں اس حج میں جس کا رسول ﷺ نے انہیں حجۃ الوداع سے پہلے امیر بنایا تھا، اس جماعت میں شامل کر کے بھیجا جو لوگوں میں اعلان کر رہی تھی: لوگو! سن لو! اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کر سکے گا اور نہ کوئی ننگا ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کرے گا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) narrated that Abu Bakr (RA) sent him, during the Hajj that the Messenger of Allah (ﷺ) appointed him to lead before the Farewell Pilgrimage, with a group of others to announce to the people: “No idolator is to perform Hajj after this year, and no one is to circumambulate the House naked.” (Sahih)