Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: Az-Zihar)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3459.
حضرت عکرمہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبیﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے نبی! میں نے اپنی بیوی سے ظہار کیا تھا‘ پھر کفارہ ادا کرنے سے پہلے میں اس سے جماع کرلیا۔ آپ نے فرمایا: ”تجھے کس چیز نے ایسا کرنے پر مجبور کیا؟“ اس نے کہا: اے اللہ کے نبی! میں نے چاندی میں اس کی پنڈلیوں کی سفیدی دیکھی۔ آپ نے فرمایا: ”اب علیحدہ رہنا حتیٰ کہ تو اپنے ذمے واجب کفارہ ادا کرے۔“ اسحاق نے اپنی حدیث میں یہ الفاظ بیان کیے ہیں: ”اب اس سے علیحدہ رہنا حتیٰ کہ تو اپنے ذمے واجب کفارہ ادا کرے۔“ یہ الفاظ استاد محمد عبدالاعلیٰ کے ہیں۔ ابو عبدالرحمن (امام نسائی ؓ ) بیان کرتے ہیں کہ مذکورہ بالا دونوں روایتیں مسند کے بجائے مرسل ہی صحیح ہیں۔ واللہ أعلم۔
تشریح:
(۱) امام نسائی رحمہ اللہ کے اس حدیث میں دو استاد ہیں: اسحاق بن ابراہیم اور محمد بن عبدالاعلیٰ۔ امام صاحب نے دونوں سے روایت بیان کی ہے اور جن الفاظ میں دونوں کا اختلاف تھا ان کی نشاندہی بھی کردی۔ اس لحاظ سے امام صاحب کا نیچے یہ کہنا کہ ’’یہ الفاظ محمد عبدالاعلیٰ کے ہیں‘‘ محل نظر ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ دونوں استاتذہ کی حدیث کا سیاق باہم مختلف اور متضاد ہے صرف معنی ومفہوم ایک ہے۔ اس طرح امام صاحب کی یہ دونوں وضاحتیں باہم متضاد معلوم ہوتی ہیں۔ واللہ اعلم۔ افادہ الاتیوبی رحمہ اللہ دیکھیے: (ذخیرہ العقبیٰ شرح سنن النسائی:۲۹/۲۴) (۲) یہ دونوں روایات حضرت عکرمہ سے مروی ہیں جو تابعی ہیں۔ گویا وہ موقع پر موجود نہیں تھے۔ ایسی روایت کو مرسل کہا جاتا ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے اس راویی کے مرسل ہونے کو ترجیح دی ہے۔ اور مسند (متصل) روایت (۳۴۸۷) کو صحیح تسلیم نہیں کیا‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت متصلاً بھی ثابت ہے اور تعدد طرق اور شواہد کی بنا پر صحیح ہے ۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے ارواء میں اس پر مفصل بحث کی ہے اور یہی نتیجہ نکالا ہے۔ دیکھیے: (الاروا: ۷/۱۷۸۔ ۱۸۰) وذخیرۃ العقبیٰ) شرح سنن النسائی: ۲۹/۶۱، ۶۲و۲۴، ۶۵)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3461
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3459
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3489
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت عکرمہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبیﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے نبی! میں نے اپنی بیوی سے ظہار کیا تھا‘ پھر کفارہ ادا کرنے سے پہلے میں اس سے جماع کرلیا۔ آپ نے فرمایا: ”تجھے کس چیز نے ایسا کرنے پر مجبور کیا؟“ اس نے کہا: اے اللہ کے نبی! میں نے چاندی میں اس کی پنڈلیوں کی سفیدی دیکھی۔ آپ نے فرمایا: ”اب علیحدہ رہنا حتیٰ کہ تو اپنے ذمے واجب کفارہ ادا کرے۔“ اسحاق نے اپنی حدیث میں یہ الفاظ بیان کیے ہیں: ”اب اس سے علیحدہ رہنا حتیٰ کہ تو اپنے ذمے واجب کفارہ ادا کرے۔“ یہ الفاظ استاد محمد عبدالاعلیٰ کے ہیں۔ ابو عبدالرحمن (امام نسائی ؓ ) بیان کرتے ہیں کہ مذکورہ بالا دونوں روایتیں مسند کے بجائے مرسل ہی صحیح ہیں۔ واللہ أعلم۔
حدیث حاشیہ:
(۱) امام نسائی رحمہ اللہ کے اس حدیث میں دو استاد ہیں: اسحاق بن ابراہیم اور محمد بن عبدالاعلیٰ۔ امام صاحب نے دونوں سے روایت بیان کی ہے اور جن الفاظ میں دونوں کا اختلاف تھا ان کی نشاندہی بھی کردی۔ اس لحاظ سے امام صاحب کا نیچے یہ کہنا کہ ’’یہ الفاظ محمد عبدالاعلیٰ کے ہیں‘‘ محل نظر ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ دونوں استاتذہ کی حدیث کا سیاق باہم مختلف اور متضاد ہے صرف معنی ومفہوم ایک ہے۔ اس طرح امام صاحب کی یہ دونوں وضاحتیں باہم متضاد معلوم ہوتی ہیں۔ واللہ اعلم۔ افادہ الاتیوبی رحمہ اللہ دیکھیے: (ذخیرہ العقبیٰ شرح سنن النسائی:۲۹/۲۴) (۲) یہ دونوں روایات حضرت عکرمہ سے مروی ہیں جو تابعی ہیں۔ گویا وہ موقع پر موجود نہیں تھے۔ ایسی روایت کو مرسل کہا جاتا ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے اس راویی کے مرسل ہونے کو ترجیح دی ہے۔ اور مسند (متصل) روایت (۳۴۸۷) کو صحیح تسلیم نہیں کیا‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت متصلاً بھی ثابت ہے اور تعدد طرق اور شواہد کی بنا پر صحیح ہے ۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے ارواء میں اس پر مفصل بحث کی ہے اور یہی نتیجہ نکالا ہے۔ دیکھیے: (الاروا: ۷/۱۷۸۔ ۱۸۰) وذخیرۃ العقبیٰ) شرح سنن النسائی: ۲۹/۶۱، ۶۲و۲۴، ۶۵)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عکرمہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہا: اللہ کے نبی! میں نے اپنی بیوی سے ظہار کیا اور ظہار کا کفارہ ادا کرنے سے پہلے ہی اسے چھاپ لیا۔ آپ نے فرمایا: ”کس چیز نے تمہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا؟“ اس نے کہا: اللہ کے نبی! میں نے چاندنی رات میں اس کی گوری گوری پنڈلیاں دیکھیں(تو بے قابو ہو گیا)، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”اس سے الگ رہو جب تک کہ تم ادا نہ کر دو وہ چیز جو تم پر عائد ہوتی ہے (یعنی کفارہ دے دو)۔“ اسحاق بن راہویہ نے اپنی حدیث میں «فَاعْتَزِلْ» کے بجائے «فَاعْتَزِلْهَا» بیان کیا ہے اور یہ «فاعتزل» لفظ محمد کی روایت میں ہے۔ امام ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں:یہ مرسل حدیث مسند کے مقابل میں زیادہ صحیح اور اولیٰ ہے وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى أَعْلَمُ۔ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی یہ حدیث مسنداً ابن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے اور مرسلاً عکرمہ سے اور مسند کی بنسبت مرسل روایت صحیح ہے ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Ikrimah said: "A man came to the Prophet of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) and said: 'O Prophet of Allah,' and that he had declared Zihar to his wife, then he had intercourse with her before he did what he had to do. He said: 'What made you do that?' He said: 'O Prophet of Allah! I saw the whiteness of her calves in the moonlight.' The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: 'Keep away until you have done what you have to do.' (One of the narrators) Ishaq said in his Hadith: "Keep away from her until you have done what you have to do." The wording is that of Muhammad.