باب: جب کوئی شخص اپنی بیوی پر اشارتاً زنا کا الزام لگائے اور بچے کی نفی سے چپ رہے مگر ارادہ نفی ہی کا ہو؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: If A Man Hints An Accusation About His Wife, And Wanted To Disown The Child)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3480.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے منقول ہے کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہﷺ کے ہاں حاضر تھے کہ ایک آدمی کھڑا ہو کر کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! میرے گھر سیاہ رنگ کا لڑکا پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”یہ کیسے ہوگا؟“ اس نے کہا: مجے تو کوئی پتہ نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”تیرے پاس اونٹ ہیں؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”ان کا رنگ کیا ہے؟“ اس نے کہا: سرخ۔ آپ نے فرمایا: ”کیا ان میں کوئی خاکستری اونٹ بھی ہے؟ اس نے کہا: جی! بہت سے اونٹ خاکستری ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”یہ کیسے ہوا؟“ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں حقیقت تو نہیں جانتا الا یہ کہ کسی رگ کی کشش ہو۔ آپ نے فرمایا: ”اس بچے میں بھی کسی رگ کی کشش ہوسکتی ہے۔“ اس بنا پر رسول اللہﷺ نے یہ واضح فرمایا: ”کسی آدمی کو اس بچے کی نفی کی اجازت نہیں جو اس کے بستر پر پیدا ہوا ہو‘ الا یہ کہ وہ دعویٰ کرے کہ میں نے اپنی بیوی کو زنا کی حالت میں دیکھا ہے۔“
تشریح:
(1) بچے میں کئی قسم کی مشابہتیں پائی جاسکتی ہیں‘ قریب کے کسی فرد کے ساتھ بھی‘ بعید کے فرد کے ساتھ بھی اور دوافراد کے ساتھ بھی‘ لہٰذا رنگ وروپ یا نین نقش کی بنا پر کسی بچے کو مشکوک قرار دے کر اس کی نفی نہیں کی جاسکتی جب تک زنا ہونے کا یقین نہ ہو۔ اگر وہ نفی کرے گا تو اسے لعان کرنا پڑے گا یا حد کا مستحق ہوگا۔ (2) ”اس کے بستر پر“ یعنی اس کی بیوی یا لونڈی سے پیدا ہوا ہو۔ بیوی یا لونڈی کو استعارتاً بستر کہہ دیا جاتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3482
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3480
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3510
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے منقول ہے کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہﷺ کے ہاں حاضر تھے کہ ایک آدمی کھڑا ہو کر کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! میرے گھر سیاہ رنگ کا لڑکا پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”یہ کیسے ہوگا؟“ اس نے کہا: مجے تو کوئی پتہ نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”تیرے پاس اونٹ ہیں؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”ان کا رنگ کیا ہے؟“ اس نے کہا: سرخ۔ آپ نے فرمایا: ”کیا ان میں کوئی خاکستری اونٹ بھی ہے؟ اس نے کہا: جی! بہت سے اونٹ خاکستری ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”یہ کیسے ہوا؟“ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں حقیقت تو نہیں جانتا الا یہ کہ کسی رگ کی کشش ہو۔ آپ نے فرمایا: ”اس بچے میں بھی کسی رگ کی کشش ہوسکتی ہے۔“ اس بنا پر رسول اللہﷺ نے یہ واضح فرمایا: ”کسی آدمی کو اس بچے کی نفی کی اجازت نہیں جو اس کے بستر پر پیدا ہوا ہو‘ الا یہ کہ وہ دعویٰ کرے کہ میں نے اپنی بیوی کو زنا کی حالت میں دیکھا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) بچے میں کئی قسم کی مشابہتیں پائی جاسکتی ہیں‘ قریب کے کسی فرد کے ساتھ بھی‘ بعید کے فرد کے ساتھ بھی اور دوافراد کے ساتھ بھی‘ لہٰذا رنگ وروپ یا نین نقش کی بنا پر کسی بچے کو مشکوک قرار دے کر اس کی نفی نہیں کی جاسکتی جب تک زنا ہونے کا یقین نہ ہو۔ اگر وہ نفی کرے گا تو اسے لعان کرنا پڑے گا یا حد کا مستحق ہوگا۔ (2) ”اس کے بستر پر“ یعنی اس کی بیوی یا لونڈی سے پیدا ہوا ہو۔ بیوی یا لونڈی کو استعارتاً بستر کہہ دیا جاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک روز ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے کھڑا ہو کر کہا: اللہ کے رسول! میرے یہاں ایک کالا بچہ پیدا ہوا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کہاں سے آیا یہ اس کا کالا رنگ؟“، اس نے کہا: مجھے نہیں معلوم، آپ نے فرمایا: ”کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟“، اس نے کہا: جی ہاں ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”ان کے رنگ کیا ہیں؟“، اس نے کہا: سرخ ہیں، آپ نے فرمایا: ”کیا کوئی ان میں خاکی رنگ کا بھی ہے؟“، اس نے کہا: ان میں خاکی رنگ کے بھی اونٹ ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”یہ خاکی رنگ کہاں سے آیا؟“، اس نے کہا: میں نہیں جانتآ، اللہ کے رسول! ہو سکتا ہے کسی رگ نے اسے کشید کیا ہو (یعنی یہ نسلی کشش کا نتیجہ ہو اور نسل میں کوئی کالے رنگ کا ہو)، آپ ﷺ نے فرمایا: ”اور یہ بھی ہو سکتا ہے کسی رگ کی کشش کے نتیجہ میں کالے رنگ کا پیدا ہوا ہو۔“ اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے یہ فیصلہ فرما دیا ہے کہ کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی سے پیدا ہونے والے بچے کا انکار کر دے جب تک کہ وہ اس کا دعویٰ نہ کرے کہ اس نے اسے بدکاری کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Hurairah said: "While we were with the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم), a man stood up and said: 'O Messenger of Allah, a black boy has been born to me.' The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'How did that happen?' He said: 'I do not know.' He said: 'Do you have camels?' He said: 'Yes.' He said: 'What color are they?' He said: 'Red.' He said: 'Are there any gray camels among them?' He said: 'There are some gray camels among them.' He said: 'Where do they come from?' He said: 'I do not know, O Allah's Messenger! Perhaps it is hereditary.' He said: 'Perhaps this is also hereditary.' Because of this, the Messenger of Allah decreed the following: 'It is not allowed for a man, to disown a child who was born on his bed, unless he claimed that he had seen an immoral act (Fahishah).