باب: خاوند بیوی میں سے ایک مسلمان ہوجائے تو بچے کو اختیار دیا جائے (وہ کس کے ساتھ رہنا چاہتا ہے)
)
Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: When One Parent Becomes Muslim, And The Child Is Given The Choice)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3496.
حضرت ابومیمونہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابوہریرہ ؓ کے پاس تھا تو انہوں نے فرمایا: ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی: آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں! میرا (سابقہ) خاوند میرے بیٹے کو لے جانا چاہتا ہے جب کہ وہ مجھے بہت نفع دیتا ہے‘ مثلاً بئرأبی عنبہ سے مجھے پانی لاکر دے دیتا ہے۔ اتنے میں اس کا خاوند بھی آگیا اور کہنے لگا: میرے بیٹے کے بارے میں کون مجھ سے جھگڑا کرسکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اے لڑکے! یہ تیرا باپ ہے اور یہ تیری ماں‘ جس کا چاہے ہاتھ پکڑ لے۔“ اس نے اپنی والدہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے لے کر چلی گئی۔
تشریح:
(1) اگر خاوند بیوی دونوں مسلمان ہوں مگر ان میں جدائی ہوجائے تو اس صورت میں بچہ چھوٹا ہے تو وہ اپنی ماں کے پاس رہے گا جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے اس بیٹے کے لیے میرا پیٹ برتن تھا‘ میری چھاتی اس کا مشکیزہ تھی اور میری گود اس کی پنا ہ گاہ تھی۔ اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی ہے اور وہ اب اسے مجھ سے چھیننا چاہتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”تو اس کی زیادہ حق دار ہے جب تک تو آگے نکاح نہیں کرتی۔“ (سنن داود‘ الطلاق‘ حدیث:۲۲۷۶) اور اگر بچہ سن تمیز کو پہنچا ہوا ہے تو پھر اسے اختیار دیا جائے گا۔ وہ جسے اختیار کر لے گا اس کے پاس رہے گا جیسا کہ اس حدیث میں ہے۔ احادیث میں تطبیق کی یہ بہترین صورت ہے۔ تمام احادیث پر عمل ہوجاتا ہے۔ (2) بئرأبی عنبہ مدینہ منورہ سے کافی باہر تقریباً ۱۲ میل دور ایک کنواں ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3498
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3496
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3526
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت ابومیمونہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابوہریرہ ؓ کے پاس تھا تو انہوں نے فرمایا: ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی: آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں! میرا (سابقہ) خاوند میرے بیٹے کو لے جانا چاہتا ہے جب کہ وہ مجھے بہت نفع دیتا ہے‘ مثلاً بئرأبی عنبہ سے مجھے پانی لاکر دے دیتا ہے۔ اتنے میں اس کا خاوند بھی آگیا اور کہنے لگا: میرے بیٹے کے بارے میں کون مجھ سے جھگڑا کرسکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اے لڑکے! یہ تیرا باپ ہے اور یہ تیری ماں‘ جس کا چاہے ہاتھ پکڑ لے۔“ اس نے اپنی والدہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے لے کر چلی گئی۔
حدیث حاشیہ:
(1) اگر خاوند بیوی دونوں مسلمان ہوں مگر ان میں جدائی ہوجائے تو اس صورت میں بچہ چھوٹا ہے تو وہ اپنی ماں کے پاس رہے گا جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے اس بیٹے کے لیے میرا پیٹ برتن تھا‘ میری چھاتی اس کا مشکیزہ تھی اور میری گود اس کی پنا ہ گاہ تھی۔ اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی ہے اور وہ اب اسے مجھ سے چھیننا چاہتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”تو اس کی زیادہ حق دار ہے جب تک تو آگے نکاح نہیں کرتی۔“ (سنن داود‘ الطلاق‘ حدیث:۲۲۷۶) اور اگر بچہ سن تمیز کو پہنچا ہوا ہے تو پھر اسے اختیار دیا جائے گا۔ وہ جسے اختیار کر لے گا اس کے پاس رہے گا جیسا کہ اس حدیث میں ہے۔ احادیث میں تطبیق کی یہ بہترین صورت ہے۔ تمام احادیث پر عمل ہوجاتا ہے۔ (2) بئرأبی عنبہ مدینہ منورہ سے کافی باہر تقریباً ۱۲ میل دور ایک کنواں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابومیمونہ کہتے ہیں کہ ہم ایک دن ابوہریرہ ؓ کے پاس تھے تو انہوں نے بتایا کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان! میرا شوہر میرا بیٹا مجھ سے چھین لینا چاہتا ہے جب کہ مجھے اس سے فائدہ (و آرام) ہے، وہ مجھے عنبہ کے کنویں کا پانی (لا کر) پلاتا ہے، (اتنے میں) اس کا شوہر بھی آ گیا اور اس نے کہا: کون میرے بیٹے کے معاملے میں مجھ سے جھگڑا (اور اختلاف) کرتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے (اس کے بیٹے سے کہا:) اے لڑکے! یہ تمہارا باپ ہے اور یہ تمہاری ماں ہے، تو تم جس کے ساتھ رہنا چاہو اس کا ہاتھ پکڑ لو چنانچہ اس نے اپنی ماں کا ہاتھ تھام لیا اور وہ اسے اپنے ساتھ لے گئی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Maimunah said: "While I was with Abu Hurairah he said: 'A woman came to the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) and said: May my father and mother be ransomed for you! My husband wants to take my son away, but he helps me, and brings me water from the well of Abu 'Inabah. Her husband came and said: Who is going to take my son from me? The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "O boy, this is your father and this is your mother; take the hand of whichever of them you want." He took his mother's hand and she left with him.