Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: The 'Iddah Of A Woman Separated By Khul')
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3497.
حضرت ثابت بن قیس بن شماس ؓ نے اپنی بیوی کو مارا اور اس کا ہاتھ توڑدیا۔ اس کا نام جمیلہ بنت عبداللہ بن ابی تھا۔ اس کا بھائی یہ شکایت لے کر رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہوا تو رسول اللہﷺ نے حضرت ثابت کو پیغام بھیج کر بلایا اور (تحقیق کے بعد) فرمایا: ”تو نے جو کچھ اسے دیا ہے‘ واپس لے لے اور اسے چھوڑ دے۔“ اس نے کہا: ٹھیک ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جمیلہ کو حکم دیا کہ وہ ایک حیض تک انتظار کرے اور میکے چلی جائے۔
تشریح:
خلع چونکہ فسخ نکاح ہے‘ ا س لیے اس کی عدت ایک حیض ہے‘ وہ بھی صرف اسبترائے رحم کے لیے‘ یعنی پتہ چل جائے کہ عورت حاملہ ہے یا غیر حاملہ۔ اگر حاملہ ہو تو پھر وہ وضع حمل کے بعد آگے نکاح کرسکے گی۔ اور غیر حاملہ ہونے کی صورت میں ایک حیض کے بعد۔ حضرت ابن عباس اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما سے بھی یہی صراحت منقول ہے۔ امام شافعی‘ احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ کا بھی یہی موقف ہے۔ احناف کے نزدیک خلع طلاق ہے‘ اس لیے وہ کہتے ہیں کہ اس کی عدت تین حیض ہے لیکن ان کا یہ موقف صحیح احادیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح، وقال الترمذي: " حسن غريب "، والحاكم:
" صحيح الإسناد "، ووافقه الذهبي) .
إسناده: حدثنا محمد بن عبد الرحيم البزاز: ثنا علي بن بَحْرٍ القطان: ثنا
هشام بن يوسف عن معمر عن عمرو بن مسلم عن عكرمة عن ابن عباس.
قال أبو داود: " وهذا الحديث رواه عبد الرزاق عن معمر عن عمرو بن مسلم
عن عكرمة عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ... مرسلاً ".
قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات رجال "الصحيح "؛ غير القطان، وهو ثقة.
إلا أن عمرو بن مسلم- وهو الجَنَدي- وإن أخرج له مسلم؛ فقد ضعفه الجمهور
من قبل حفظه. وقال الحافظ:
" صدوق له أوهام ".
وقد اختلف عليه في إسناده، كما أشار إلى ذلك المصنف بذكره رواية عبد الرزاق
المرسلة، وهي عنده في "المصنف " (11858) .
وسواءً كان الراجح في الحديث وصله أو إرساله؛ فهو صحيح لشواهده الآتية.
والحديث أخرجه الترمذي (1185) ، والدارقطني (397) ، والحاكم
(2/206) ، وعنه البيهقي (7/450) من طرق أخرى عن هشام بن يوسف... به .
وحسنه الترمذي.
وصححه الحاكم والذهبي كما ذكرت آنفاً. لكن زاد الدارقطني في المتن فقال:
حيضة ونصفاً.
وهي زيادة شاذة؛ بل منكرة، تفرد بها أحد رواة الدارقطني ممن دون هشام بن
يوسف؛ خِلافاً لكل من رواه عن هشام. وبخاصة أن رواية عبد الرزاق المرسلة
خالية عن هذه الزيادة، وكذلك الشأن في الطرق الأخرى والشواهد الآتي ذكرها.
فلا تغتر بعد ذلك بقول القرطبي في "تفسيره " (3/145) - عقب رواية
الدارقطني-:
" والراوي عن معمر هنا في الحيضة والنصف: هو الراوي عنه في الحيضة
الواحدة، وهو هشام بن يوسف، خرج له البخاري وحده، فالحديث مضطرب من
جهة الإسناد والمتن، فسقط الاحتجاج به في أن الخلع فسخ، وفي أن عدة المطلقة
حيضة"!
فأقول: كلا؛ ويشهد له ما رواه محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان:
أن رُبَيعَ بنت مُعَوِّذِ ابن عَفْراءَ أخبرته:
أن ثابت بن قيس بن شَماسِ ضرب امرأته، فكسر يدها- وهي جميلة بنت
عبد الله بن أُبَي-، فأتى أخوها يَشتكيه إلى رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فأرسل رسول الله
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إلى ثابت، فقال له: " خذ الذي لها عليك، وخل سبيلها ". قال: نعم.
فأمرها رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أن تتربص حيضة واحدة فَتَلْحَقَ بأهلها.
أخرجه النسائي (2/109) من طريق يحيى بن أبي كثير قال: أخبرني محمد
ابن عبد الرحمن... به.
قلت: وسنده صحيح على شرط البخاري.
وتابعه أبو الأسود عن أبي سلمة بن عبد الرحمن ومحمد بن عبد الرحمن بن
ثوبان عن الرُبَيع بنت مُعَوِّذ... مختصراً بالجملة الأخيرة منه.
أخرجه الدارقطني (397) عن ابن لهيعة: نا أبو الأسود...
وسنده لا بأس به في المتابعات والشواهد.
وتابعه محمد بن عبد الرحمن مولى آل طلحة عن سليمان بن يسارعن الرَبَيع
بنت مُعَوذ... به مختصراً نحوه: أخرجه الترمذي (1185) ، والبيهقي (7/450) .
وسنده صحيح. وقال الترمذي:
" حديث الربيع بنت معوذ؛ الصحيح أنها أُمِرَتْ أن تعتد بحيضة ".
يعني: أن الآمر لها ليس هو النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وإنما هو عثمان بن عفان، كما في
رواية صحيحة صريحة بذلك عند البيهقي، سأذكرها في الحديث الآتي إن شاء الله.
لكن قد صرح عثمان- بعد أن أفتاها بذلك- برفعه إلى النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقال لها:
" وأنا متبع في ذلك قضاء رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في مريم المَنَالية؛ كانت تحت ثابت
ابن قيس بن شَمَّاس فاختلعت منه ".
أخرجه النسائي وابن ماجه (1/633- 634) بإسناد حسن. وقال الحافظ
(9/328) :
" وإسناده جيد ".
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3499
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3497
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3527
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت ثابت بن قیس بن شماس ؓ نے اپنی بیوی کو مارا اور اس کا ہاتھ توڑدیا۔ اس کا نام جمیلہ بنت عبداللہ بن ابی تھا۔ اس کا بھائی یہ شکایت لے کر رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہوا تو رسول اللہﷺ نے حضرت ثابت کو پیغام بھیج کر بلایا اور (تحقیق کے بعد) فرمایا: ”تو نے جو کچھ اسے دیا ہے‘ واپس لے لے اور اسے چھوڑ دے۔“ اس نے کہا: ٹھیک ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جمیلہ کو حکم دیا کہ وہ ایک حیض تک انتظار کرے اور میکے چلی جائے۔
حدیث حاشیہ:
خلع چونکہ فسخ نکاح ہے‘ ا س لیے اس کی عدت ایک حیض ہے‘ وہ بھی صرف اسبترائے رحم کے لیے‘ یعنی پتہ چل جائے کہ عورت حاملہ ہے یا غیر حاملہ۔ اگر حاملہ ہو تو پھر وہ وضع حمل کے بعد آگے نکاح کرسکے گی۔ اور غیر حاملہ ہونے کی صورت میں ایک حیض کے بعد۔ حضرت ابن عباس اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما سے بھی یہی صراحت منقول ہے۔ امام شافعی‘ احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ کا بھی یہی موقف ہے۔ احناف کے نزدیک خلع طلاق ہے‘ اس لیے وہ کہتے ہیں کہ اس کی عدت تین حیض ہے لیکن ان کا یہ موقف صحیح احادیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ثابت بن قیس بن شماس ؓ نے اپنی بیوی کو مارا اور (ایسی مار ماری کہ) اس کا ہاتھ (ہی) توڑ دیا۔ وہ عورت عبداللہ بن ابی کی بیٹی جمیلہ تھی، اس کا بھائی اس کی شکایت لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، رسول اللہ ﷺ نے ثابت بن قیس کو بلا بھیجا (جب وہ آئے تو) آپ نے ان سے فرمایا: ”تمہاری دی ہوئی جو چیز اس کے پاس ہے اسے لے لو اور اس کا راستہ چھوڑ دو“۱؎ انہوں نے کہا: اچھا، پھر رسول اللہ ﷺ نے اسے (یعنی عورت جمیلہ کو) حکم دیا کہ ایک حیض کی عدت گزار کر اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ۔۲؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی اسے طلاق دے کر اپنی زوجیت سے آزاد کر دو۔ ۲؎ : یہ حدیث دلیل ہے ان لوگوں کے لیے جو کہتے ہیں کہ خلع فسخ ہے طلاق نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ar-Rubayy' bint Mu'awwidh bin 'Afra' narrated that Thabit bin Qais bin Shammas hit his wife and broke her arm --her name was Jamilah bint 'Abdullah bin Ubayy. Her brother came to the Messenger of Allah to complain about him, and the Messenger of Allah sent for Thabit and said: "Take what she owes you and let her go." He said: "Yes." And the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) ordered her to wait for one menstrual cycle and then go to her family.