Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: The 'Iddah Of A Woman Separated By Khul')
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3498.
حضرت عبادہ بن ولید بن عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ربیع بنت معوذ ؓ سے کہا کہ مجھے اپنا واقعہ بیان کیجیے۔ وہ کہنے لگی کہ میں نے اپنے خاوند سے خلع لیا‘ پھر میں حضرت عثمان ؓ کے پاس حاضر ہوئی اور آپ سے پوچھا: مجھ پر کتنی عدت واجب ہے؟ انہو ں نے فرمایا: تجھ پر کوئی عدت واجب نہیں مگر یہ کہ تیرے خاوند نے تجھ سے اس طہر میں جماع کیا ہو تو پھر تو ایک حیض انتظار کر۔ انہوں نے فرمایا: اس سلسلے میں میں نے مریم مغالیہ کی بابت رسول اللہﷺ کے فیصلے کی پیروی کی ہے۔ وہ حضرت ثابت بن قیس بن شماس کے نکاح میں تھی اور انہوں نے ان سے خلع لے لیا تھا۔
تشریح:
(1) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے فیصلے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک حیض عدت بھی استبرائے رحم‘ یعنی رحم کی صفائی معلوم کرنے کے لیے ہے۔ اگر تازہ طہر میں جماع نہ ہوا ہو تو ایک حیض عدت بھی ضروری نہیں لیکن یہ تفصیل حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اپنی ہے‘ نبیﷺ سے جو صحیح ثابت ہے کہ وہ یہی ہے کہ آپ نے ہر خلع والی عورت کو ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا ہے (ماسواحاملہ کے) خواہ اس سے حالیہ طہر میں جماع ہوا ہو یا نہ۔ آپ نے اس کی تفصیل طلب نہیں کی‘ نیز چونکہ جماع مخفی چیز ہے‘ لہٰذا صحیح بات یہی ہے کہ ہر خلع والی عورت ایک حیض عدت گزارے تاکہ شک وشبہ نہ رہے۔ (2) یہ بات یاد رہے کہ خلع میں رجوع تو نہیں ہوسکتا مگر بعد میں دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے کیونکہ یہ تین طلاق کے حکم میں ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3500
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3498
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3528
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت عبادہ بن ولید بن عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ربیع بنت معوذ ؓ سے کہا کہ مجھے اپنا واقعہ بیان کیجیے۔ وہ کہنے لگی کہ میں نے اپنے خاوند سے خلع لیا‘ پھر میں حضرت عثمان ؓ کے پاس حاضر ہوئی اور آپ سے پوچھا: مجھ پر کتنی عدت واجب ہے؟ انہو ں نے فرمایا: تجھ پر کوئی عدت واجب نہیں مگر یہ کہ تیرے خاوند نے تجھ سے اس طہر میں جماع کیا ہو تو پھر تو ایک حیض انتظار کر۔ انہوں نے فرمایا: اس سلسلے میں میں نے مریم مغالیہ کی بابت رسول اللہﷺ کے فیصلے کی پیروی کی ہے۔ وہ حضرت ثابت بن قیس بن شماس کے نکاح میں تھی اور انہوں نے ان سے خلع لے لیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے فیصلے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک حیض عدت بھی استبرائے رحم‘ یعنی رحم کی صفائی معلوم کرنے کے لیے ہے۔ اگر تازہ طہر میں جماع نہ ہوا ہو تو ایک حیض عدت بھی ضروری نہیں لیکن یہ تفصیل حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اپنی ہے‘ نبیﷺ سے جو صحیح ثابت ہے کہ وہ یہی ہے کہ آپ نے ہر خلع والی عورت کو ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا ہے (ماسواحاملہ کے) خواہ اس سے حالیہ طہر میں جماع ہوا ہو یا نہ۔ آپ نے اس کی تفصیل طلب نہیں کی‘ نیز چونکہ جماع مخفی چیز ہے‘ لہٰذا صحیح بات یہی ہے کہ ہر خلع والی عورت ایک حیض عدت گزارے تاکہ شک وشبہ نہ رہے۔ (2) یہ بات یاد رہے کہ خلع میں رجوع تو نہیں ہوسکتا مگر بعد میں دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے کیونکہ یہ تین طلاق کے حکم میں ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبادہ بن ولید ربیع بنت معوذ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ آپ مجھ سے اپنا واقعہ (حدیث) بیان کیجئے انہوں نے کہا: میں نے اپنے شوہر سے خلع کیا اور عثمان ؓ کے پاس آ کر پوچھا کہ مجھے کتنی عدت گزارنی ہو گی؟ انہوں نے کہا: تمہارے لیے عدت تو کوئی نہیں لیکن اگر انہیں دنوں (یعنی طہر سے فراغت کے بعد) اپنے شوہر کے پاس رہی ہو تو ایک حیض آنے تک رکی رہو۔ انہوں نے کہا: میں اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کے اس فیصلے کی پیروی کر رہا ہوں جو آپ نے ثابت بن قیس کی بیوی مریم مغالیہ کے خلع کرنے کے موقع پر صادر فرمایا تھا۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : ثابت بن قیس کی بیوی کے مختلف نام لوگوں نے لکھے ہیں، انہیں میں سے ایک مریم مغالیہ بھی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Ubadah bin Al-Walid bin 'Ubadah bin As-Samit narrated from Rubayy' bint Mu'awwidh. He said: "I said to her: 'Tell me your Hadith.' She said: 'I was separated from husband by Khul', then I came to 'Uthman and asked him: What 'Iddah do I have to observe? He said: You do not have to observe any 'Iddah, unless you had intercourse with him recently, in which case you should stay with him until you have menstruated. He said: In that I am following the ruling of the Messenger of Allah concerning Mariam Al-Maghaliyyah, who was married to Thabit bin Qais and was separated by Khul' from him.