Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: Exceptions To The 'Iddah Of Divorced Women)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3499.
حضرت ابن عباس ؓ نے (نسخ کے دلائل ذکر کرتے ہوئے) یہ آیات پڑھیں: ﴿مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ.....أَوْ مِثْلِهَا﴾ ”جو آیت ہم منسوخ کردیں یا بھلا دیں‘ ہم اس سے بہتر آیت لاتے ہیں یا اس جیسی۔“ اور فرمایا: ﴿وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً.....بِمَا يُنزلُ﴾ ”جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری آیت لے آتے ہیں‘ اور اللہ تعالیٰ اپنی اتری ہوئی آیات کو خوب جانتا ہے۔“ اور فرمایا: ﴿يَمْحُوا اللَّهُ مَا يَشَاءُ.....أُمُّ الْكِتَابِ﴾ ”اللہ تعالیٰ جو چاہے مٹا دیتا ہے اور جو چاہے باقی رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس اصل کتاب ہے۔“ قرآن مجید میں سب سے پہلے قبلہ منسوخ ہوا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ﴾ ”طلاق شدہ عورتیں تین حیض تک اپنے آپ کو (نیا نکاح کرنے سے) روک رکھیں۔“ پھر فرمایا: ﴿وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنْ الْمَحِيضِ.....ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ﴾ ”وہ عورتیں جو حیض سے نا امید ہو چکی ہیں‘ اگر تمہیں شک ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے۔“ (اس آیت کے ذریعے سے) پہلی آیت میں سے کچھ حصہ منسوخ کردیا گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَإِنْ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ.......تَعْتَدُّونَهَا﴾ ”اگر تم عورتوں کو جماع سے پہلے طلاق دو تو ان پر کوئی عدت نہیں جسے تم شمار کرو۔“
تشریح:
شاید امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ خلع کی عدت ایک حیض ہوسکتی ہے اگرچہ قرآن مجید میں طلاق کی عدت تین حیض مقرر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس حکم میں سے کچھ صورتیں مسثنیٰ فرمائی ہیں‘ مثلاً وہ عورتیں جن کو حیض آنا بند ہوچکا ہے یا ابھی شروع نہیں ہوا۔ اسی طرح وہ عورت جس کو جماع کیے بغیر طلاق دے دی جائے اس کی عدت ہے ہی نہیں۔ اگر یہ صورتیں مستثنیٰ ہوسکتی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ صحیح حدیث کی وجہ سے خلع کو اس سے مستثنیٰ نہ کیا جائے؟ جس حکم سے ایک دفعہ استثنا ہوجائے‘ مزید استثنا بھی ممکن ہے۔ یہ متفقہ بات ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن صحيح، وصححه الحاكم والذهبي) .
إسناده: حدثنا أحمد بن محمد المروزي: حدثني علي بن حسين بن واقد عن
أبيه عن يزيد النحوي عن عكرمة عن ابن عباس.
قلت: وهذا إسناد حسن، وقد مضى الكلام عليه؛ حيث أخرج المصنف به
متناً أخر برقم (1822) . وقد خرجت هذا في الإرواء (2080) ، وذكرت له
شاهداً مرسلاً صحيح الإسناد.
وروي موصولاً عن عائشة؛ وصححه الحاكم ورده الذهبي، الإرواء ( 2080 ) ،
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3501
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3499
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3529
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت ابن عباس ؓ نے (نسخ کے دلائل ذکر کرتے ہوئے) یہ آیات پڑھیں: ﴿مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ.....أَوْ مِثْلِهَا﴾ ”جو آیت ہم منسوخ کردیں یا بھلا دیں‘ ہم اس سے بہتر آیت لاتے ہیں یا اس جیسی۔“ اور فرمایا: ﴿وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً.....بِمَا يُنزلُ﴾ ”جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری آیت لے آتے ہیں‘ اور اللہ تعالیٰ اپنی اتری ہوئی آیات کو خوب جانتا ہے۔“ اور فرمایا: ﴿يَمْحُوا اللَّهُ مَا يَشَاءُ.....أُمُّ الْكِتَابِ﴾ ”اللہ تعالیٰ جو چاہے مٹا دیتا ہے اور جو چاہے باقی رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس اصل کتاب ہے۔“ قرآن مجید میں سب سے پہلے قبلہ منسوخ ہوا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ﴾ ”طلاق شدہ عورتیں تین حیض تک اپنے آپ کو (نیا نکاح کرنے سے) روک رکھیں۔“ پھر فرمایا: ﴿وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنْ الْمَحِيضِ.....ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ﴾ ”وہ عورتیں جو حیض سے نا امید ہو چکی ہیں‘ اگر تمہیں شک ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے۔“ (اس آیت کے ذریعے سے) پہلی آیت میں سے کچھ حصہ منسوخ کردیا گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَإِنْ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ.......تَعْتَدُّونَهَا﴾ ”اگر تم عورتوں کو جماع سے پہلے طلاق دو تو ان پر کوئی عدت نہیں جسے تم شمار کرو۔“
حدیث حاشیہ:
شاید امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ خلع کی عدت ایک حیض ہوسکتی ہے اگرچہ قرآن مجید میں طلاق کی عدت تین حیض مقرر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس حکم میں سے کچھ صورتیں مسثنیٰ فرمائی ہیں‘ مثلاً وہ عورتیں جن کو حیض آنا بند ہوچکا ہے یا ابھی شروع نہیں ہوا۔ اسی طرح وہ عورت جس کو جماع کیے بغیر طلاق دے دی جائے اس کی عدت ہے ہی نہیں۔ اگر یہ صورتیں مستثنیٰ ہوسکتی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ صحیح حدیث کی وجہ سے خلع کو اس سے مستثنیٰ نہ کیا جائے؟ جس حکم سے ایک دفعہ استثنا ہوجائے‘ مزید استثنا بھی ممکن ہے۔ یہ متفقہ بات ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ (سورۃ البقرہ کی) آیت: « ننسخ من آية أو ننسها نأت بخير منها أو مثلها» ”جس آیت کو ہم منسوخ کر دیں یا بھلا دیں اس سے بہتر یا اس جیسی اور لاتے ہیں۔“ (البقرة: ۱۰۶) (اور سورۃ النمل کی) آیت: «وإذا بدلنا آية مكان آية واللہ أعلم ب ينزل» ”اور جب ہم کسی آیت کی جگہ دوسری آیت بدل دیتے ہیں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نازل فرماتا ہے۔“ (النحل: ۱۰۱) (اور سورۃ الرعد کی) آیت: «يَمْحُوا اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ» ”اللہ جو چاہے مٹا دے اور جو چاہے ثابت رکھے لوح محفوظ اسی کے پاس ہے۔“ (الرعد: ۳۹) کے بارے میں فرماتے ہیں: ان آیات کی روشنی میں پہلی چیز جو منسوخ ہوئی وہ قبلہ کی تبدیلی ہے،۱؎ اور (اس کے بعد) ابن عباس ؓ نے فرمایا: (اور یہ جو سورۃ البقرہ کی) آیت: «وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ» ”طلاق والی عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں۔“ (البقرة: ۲۲۸) اور (سورۃ الطلاق کی) آیت: «وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنْ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنْ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ» ”تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے ناامید ہو گئی ہوں اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے۔“ (الطلاق: ۴) آئی ہے تو ان دونوں آیات سے (ان کا عموم) منسوخ ہو گیا (سورۃ الاحزاب کی اس) آیت: «وَإِنْ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ» سے ”اگر تم مومنہ عورتوں کو ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو ان پر تمہارا کوئی حق عدت کا نہیں جسے تم شمار کرو۔“ (الاحزاب: ۴۹)۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی بیت المقدس کے بجائے قبلہ خانہ کعبہ بنا دیا گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn 'Abbas with regard to Allah's saying: "Whatever a Verse (revelation) do We abrogate or cause to be forgotten, We bring a better one or similar to it." and He said: "And when We change a Verse in place of another --and Allah knows best what He sends down." and He said: "Allah blots out what He wills and confirms (what He wills). And with Him is the Mother of the Book." "The first thing that was abrogated in the Qur'an was the Qiblah." And He said: "And divorced women shall wait (as regards their marriage) for three menstrual periods." and He said: "And those of your women as have passed the age of monthly courses, for them the 'Iddah, if you have doubt (about their periods), is three months." So (some) of that was abrogated, (according to) His, Most High, saying: "And then divorce them before you have sexual intercourse with them, no 'Iddah have you to count in respect of them.