Sunan-nasai:
The Book of Wills
(Chapter: It Is Disliked To Delay Making A Will)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3613.
حضرت مطرف اپنے والد محترم (حضرت عبداللہ بن شخیر ؓ ) سے بیان فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے {اَلْھٰکُمْ التَّکَاثُرُ حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرِ} ”تم کو کثرت کی خواہش وطلب نے (اللہ تعالیٰ اور آخرت سے) غافل رکھا حتیٰ کہ تم نے قبریں دیکھ لیں۔“ کی تفسیر میں بیان فرمایا: ”انسان کہتا ہے: میرا مال‘ میرا مال‘ حالانکہ تیرا مال تو وہ ہے جو تو نے کھا کر ختم کردیا یا پہن کر بوسیدہ کردیا صدقہ خیرات کرکے اس کا ثواب جاری کرلیا۔“
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3617
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3615
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3643
تمہید کتاب
وصیت سے مراد وہ باتیں ہیں جو کوئی شخص اپنی وفات سے مابعد کے لیے اپنے مال واولاد کے متعلق کرے۔ وصیت کی دوقسمیں ہیں: مالی وصیت۔ دیگر امور سے متعلق وصیت۔ وراثت کے احکام نازل ہونے سے پہلے مال کے بارے میں وصیت کرنا فرض تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہر وارث کو اس کا مقرر حصہ دے دیا اور رسول اللہﷺ نے اس کی وضاحت فرمادی تو وصیت کرنے کا وجوب ساقط ہوگیا‘ تاہم کسی ناداررشتہ دار کو یا صدقہ کرنے کی وصیت سے منع کردیا گیا ہے۔ اب ایک تہائی مال کے بارے میں وصیت واجب العمل ہوگی۔ اس سے زائد ورثاء کی مرضی پر موقوف ہے۔ مالی وصیت کسی وراثت کے بارے میں نہیں کی جاسکتی‘ یعنی وصیت کی وجہ سے وراث کا حصہ کم ہوسکتا ہے نہ زیادہ۔دیگر امور کے بارے میں انسان کوئی وصیت کرنا چاہتا ہے تو اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود ہونی چاہیے اور اس بارے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے‘ مثلاً: کوئی شخص کاروباری معاملات یا لین دین کے بارے میں معلومات کرنا چاہتا ہے تو گواہوں کی موجودگی میں یا تحریری طور پر وصیت کرے۔ کوئی شخص اگر سمجھتا ہے کہ اس کے ورثاء اس کے فوت ہونے پر بدعات وخرافات یا غیر شرعی امور کے مرتکب ہوں گے یا خواتین نوحہ کریں گی یا اس کی اولاد کو دین سے برگشتہ کیا جائے گا تو ایسے اجمور کے بارے میں وصیت کرنا ضروری ہے تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں براءی الذمہ ہوسکے۔ کسی کو وراثت سے محروم کرنا‘ کسی پر ظلم کرنا یا قطعی رحمی کی وصیت کرنا حرام ہے جس کا وبال وفات کے بعد انسان کو بھگتنا پڑے گا‘ نیز ورثاء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی ظالمانہ یا غیر شرعی وصیت کو نافذ نہ کریں۔
حضرت مطرف اپنے والد محترم (حضرت عبداللہ بن شخیر ؓ ) سے بیان فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے {اَلْھٰکُمْ التَّکَاثُرُ حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرِ} ”تم کو کثرت کی خواہش وطلب نے (اللہ تعالیٰ اور آخرت سے) غافل رکھا حتیٰ کہ تم نے قبریں دیکھ لیں۔“ کی تفسیر میں بیان فرمایا: ”انسان کہتا ہے: میرا مال‘ میرا مال‘ حالانکہ تیرا مال تو وہ ہے جو تو نے کھا کر ختم کردیا یا پہن کر بوسیدہ کردیا صدقہ خیرات کرکے اس کا ثواب جاری کرلیا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
شخیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”«ألهاكم التكاثر * حتى زرتم المقابر» (کثرت و زیادتی) کی چاہت نے تمہیں غفلت میں ڈال دیا یہاں تک کہ تم قبرستان جا پہنچے“ آپ نے فرمایا: ”ابن آدم کہتا ہے: میرا مال، میرا مال کہتا ہے؟ (لیکن حقیقت میں) تمہارا مال تو صرف وہ ہے جو تم نے کھا (پی) کر ختم کر دیا، یا پہن کر بوسیدہ اور پرانا کر دیا یا صدقہ کر کے اسے آخرت کے لیے آگے بھیج دیا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Mutarrif, from his father, that the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "The mutual rivalry (for piling up of worldly things) diverts you, 'Until you visit the graves (i.e. till you die).' The son of Adam says: 'My wealth, my wealth,' but your wealth is what you eat and consume, or what you wear and it wears out, or what you give in charity and send on ahead (for the Hereafter).