Sunan-nasai:
The Book of Wills
(Chapter: It Is Disliked To Delay Making A Will)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3615.
حضرت ابن عمر ؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”جومسلمان اپنی کسی چیز کے بارے میں وصیت کرنا چاہتا ہے‘ اس کے لیے دو راتیں بھی بغیر وصیت کے گزارنا جائز نہیں بلکہ وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود ہونی چاہیے۔“
تشریح:
(1) کیونکہ زندگی کا کوئی یقین نہیں۔ موت کسی بھی وقت آسکتی ہے‘ لہٰذا مطلوب وصیت فوراً کرنی چاہیے‘ نیز وصیت پر گواہ بھی مقرر کرلیے جائیں تاکہ بعد میں جھگڑا نہ پڑے۔ وصیت بھی تحریری ہونی چاہیے تاکہ اختلاف نہ ہو۔ دو راتوں کے ذِکر سے ظاہراً سمجھ میں آتا ہے کہ ایک رات کی تاخیر کرسکتا ہے۔ واللہ أعلم۔ ممکن ہے دو کا ذکر اتفاقاً ہو جیسا کہ آئندہ کسی حدیث میں تین کا بھی ذکر ہے۔ گویا بلاضرورت ایک رات کی تاخیر بھی جائز نہیں۔ (2) علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وصیت واجب نہیں ہے‘ صرف اس شخص کے لیے واجب ہے جس کے ذمے حقوق ہوں‘ مثلاً: فرض‘ امانت وغیرہ‘ تاہم مستحب ضرور ہے
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3619
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3617
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3645
تمہید کتاب
وصیت سے مراد وہ باتیں ہیں جو کوئی شخص اپنی وفات سے مابعد کے لیے اپنے مال واولاد کے متعلق کرے۔ وصیت کی دوقسمیں ہیں: مالی وصیت۔ دیگر امور سے متعلق وصیت۔ وراثت کے احکام نازل ہونے سے پہلے مال کے بارے میں وصیت کرنا فرض تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہر وارث کو اس کا مقرر حصہ دے دیا اور رسول اللہﷺ نے اس کی وضاحت فرمادی تو وصیت کرنے کا وجوب ساقط ہوگیا‘ تاہم کسی ناداررشتہ دار کو یا صدقہ کرنے کی وصیت سے منع کردیا گیا ہے۔ اب ایک تہائی مال کے بارے میں وصیت واجب العمل ہوگی۔ اس سے زائد ورثاء کی مرضی پر موقوف ہے۔ مالی وصیت کسی وراثت کے بارے میں نہیں کی جاسکتی‘ یعنی وصیت کی وجہ سے وراث کا حصہ کم ہوسکتا ہے نہ زیادہ۔دیگر امور کے بارے میں انسان کوئی وصیت کرنا چاہتا ہے تو اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود ہونی چاہیے اور اس بارے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے‘ مثلاً: کوئی شخص کاروباری معاملات یا لین دین کے بارے میں معلومات کرنا چاہتا ہے تو گواہوں کی موجودگی میں یا تحریری طور پر وصیت کرے۔ کوئی شخص اگر سمجھتا ہے کہ اس کے ورثاء اس کے فوت ہونے پر بدعات وخرافات یا غیر شرعی امور کے مرتکب ہوں گے یا خواتین نوحہ کریں گی یا اس کی اولاد کو دین سے برگشتہ کیا جائے گا تو ایسے اجمور کے بارے میں وصیت کرنا ضروری ہے تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں براءی الذمہ ہوسکے۔ کسی کو وراثت سے محروم کرنا‘ کسی پر ظلم کرنا یا قطعی رحمی کی وصیت کرنا حرام ہے جس کا وبال وفات کے بعد انسان کو بھگتنا پڑے گا‘ نیز ورثاء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی ظالمانہ یا غیر شرعی وصیت کو نافذ نہ کریں۔
حضرت ابن عمر ؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”جومسلمان اپنی کسی چیز کے بارے میں وصیت کرنا چاہتا ہے‘ اس کے لیے دو راتیں بھی بغیر وصیت کے گزارنا جائز نہیں بلکہ وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود ہونی چاہیے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) کیونکہ زندگی کا کوئی یقین نہیں۔ موت کسی بھی وقت آسکتی ہے‘ لہٰذا مطلوب وصیت فوراً کرنی چاہیے‘ نیز وصیت پر گواہ بھی مقرر کرلیے جائیں تاکہ بعد میں جھگڑا نہ پڑے۔ وصیت بھی تحریری ہونی چاہیے تاکہ اختلاف نہ ہو۔ دو راتوں کے ذِکر سے ظاہراً سمجھ میں آتا ہے کہ ایک رات کی تاخیر کرسکتا ہے۔ واللہ أعلم۔ ممکن ہے دو کا ذکر اتفاقاً ہو جیسا کہ آئندہ کسی حدیث میں تین کا بھی ذکر ہے۔ گویا بلاضرورت ایک رات کی تاخیر بھی جائز نہیں۔ (2) علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وصیت واجب نہیں ہے‘ صرف اس شخص کے لیے واجب ہے جس کے ذمے حقوق ہوں‘ مثلاً: فرض‘ امانت وغیرہ‘ تاہم مستحب ضرور ہے
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کسی مسلمان کے لیے جس کے پاس کوئی ایسی چیز ہو جس میں اسے وصیت کرنی ضروری ہو مناسب نہیں کہ وہ دو راتیں ایسی گزارے جس میں اس کے پاس اس کی لکھی ہوئی وصیت موجود نہ ہو.
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn 'Umar (RA) said: "The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) said: 'It is not befitting for a Muslim who has anything concerning which a will should be made, to abide for two nights without having a written will with him.