Sunan-nasai:
The Book of Wills
(Chapter: Invalidating Bequests To Heirs)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3641.
حضرت عمروبن خارجہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا: ”اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے‘ لہٰذا اب وارث کے لیے وصیت نہیں کی جا سکتی۔“
تشریح:
ابتدائی دور میں اولاد وارث بنتی تھی۔ ماں باپ اور دیگر رشتے داروں کے لیے وصیت کی جاتی تھی۔ ان کا حق مقرر نہیں تھا۔ اسی دور میں یہ آیت اتری: ﴿كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ…بِالْمَعْرُوفِ﴾ ”تم پر فرض کردیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت آنے لگے تو‘ اگر وہ مال چھوڑے جارہا ہے تو والدین رشتہ داروں کے لیے معروف طریقے سے وصیت کرے۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے سورۂ نساء میں والدین‘ اولاد، خاوند‘ بیوی اور بہن بھائیوں کے حصے مقرر فرما دیے‘ لہٰذا اب وصیت کی ضرورت نہ رہی۔ شاذ و نادر طور پر اگر کسی کے لواحقین میں کئی نادار شخص غیر وارث ہے تو وہ اس کے لیے وصیت کرسکتا ہے لیکن وارث کے حق میں نہ مقررہ حد سے زائد کی وصیت کی جا سکتی ہے نہ کم کی۔ جو مقرر کردیا گیا ہے‘ وہی ملے گا۔ اس بات کو اس حدیث نے بیان کردیا۔ اب چاہے یوں کہہ لیں کہ اس حدیث نے پہلی آیت کو منسوخ کردیا اور چاہے تو یوں کہہ لیں کہ پہلی آیت منسوخ تو مقررہ حصوں والی آیت نے کیا ہے لیکن نسخ کا بیان اس حدیث میں ہے۔ بہر حال مسئلہ متفق علیہ ہے کہ نہ وارث کا حصہ بڑھایا جاسکتا ہے‘ نہ کم کیا جاسکتا ہے۔ محروم کرنا تو دور کی بات ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3645
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3643
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3671
تمہید کتاب
وصیت سے مراد وہ باتیں ہیں جو کوئی شخص اپنی وفات سے مابعد کے لیے اپنے مال واولاد کے متعلق کرے۔ وصیت کی دوقسمیں ہیں: مالی وصیت۔ دیگر امور سے متعلق وصیت۔ وراثت کے احکام نازل ہونے سے پہلے مال کے بارے میں وصیت کرنا فرض تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہر وارث کو اس کا مقرر حصہ دے دیا اور رسول اللہﷺ نے اس کی وضاحت فرمادی تو وصیت کرنے کا وجوب ساقط ہوگیا‘ تاہم کسی ناداررشتہ دار کو یا صدقہ کرنے کی وصیت سے منع کردیا گیا ہے۔ اب ایک تہائی مال کے بارے میں وصیت واجب العمل ہوگی۔ اس سے زائد ورثاء کی مرضی پر موقوف ہے۔ مالی وصیت کسی وراثت کے بارے میں نہیں کی جاسکتی‘ یعنی وصیت کی وجہ سے وراث کا حصہ کم ہوسکتا ہے نہ زیادہ۔دیگر امور کے بارے میں انسان کوئی وصیت کرنا چاہتا ہے تو اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود ہونی چاہیے اور اس بارے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے‘ مثلاً: کوئی شخص کاروباری معاملات یا لین دین کے بارے میں معلومات کرنا چاہتا ہے تو گواہوں کی موجودگی میں یا تحریری طور پر وصیت کرے۔ کوئی شخص اگر سمجھتا ہے کہ اس کے ورثاء اس کے فوت ہونے پر بدعات وخرافات یا غیر شرعی امور کے مرتکب ہوں گے یا خواتین نوحہ کریں گی یا اس کی اولاد کو دین سے برگشتہ کیا جائے گا تو ایسے اجمور کے بارے میں وصیت کرنا ضروری ہے تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں براءی الذمہ ہوسکے۔ کسی کو وراثت سے محروم کرنا‘ کسی پر ظلم کرنا یا قطعی رحمی کی وصیت کرنا حرام ہے جس کا وبال وفات کے بعد انسان کو بھگتنا پڑے گا‘ نیز ورثاء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی ظالمانہ یا غیر شرعی وصیت کو نافذ نہ کریں۔
حضرت عمروبن خارجہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا: ”اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے‘ لہٰذا اب وارث کے لیے وصیت نہیں کی جا سکتی۔“
حدیث حاشیہ:
ابتدائی دور میں اولاد وارث بنتی تھی۔ ماں باپ اور دیگر رشتے داروں کے لیے وصیت کی جاتی تھی۔ ان کا حق مقرر نہیں تھا۔ اسی دور میں یہ آیت اتری: ﴿كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ…بِالْمَعْرُوفِ﴾ ”تم پر فرض کردیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت آنے لگے تو‘ اگر وہ مال چھوڑے جارہا ہے تو والدین رشتہ داروں کے لیے معروف طریقے سے وصیت کرے۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے سورۂ نساء میں والدین‘ اولاد، خاوند‘ بیوی اور بہن بھائیوں کے حصے مقرر فرما دیے‘ لہٰذا اب وصیت کی ضرورت نہ رہی۔ شاذ و نادر طور پر اگر کسی کے لواحقین میں کئی نادار شخص غیر وارث ہے تو وہ اس کے لیے وصیت کرسکتا ہے لیکن وارث کے حق میں نہ مقررہ حد سے زائد کی وصیت کی جا سکتی ہے نہ کم کی۔ جو مقرر کردیا گیا ہے‘ وہی ملے گا۔ اس بات کو اس حدیث نے بیان کردیا۔ اب چاہے یوں کہہ لیں کہ اس حدیث نے پہلی آیت کو منسوخ کردیا اور چاہے تو یوں کہہ لیں کہ پہلی آیت منسوخ تو مقررہ حصوں والی آیت نے کیا ہے لیکن نسخ کا بیان اس حدیث میں ہے۔ بہر حال مسئلہ متفق علیہ ہے کہ نہ وارث کا حصہ بڑھایا جاسکتا ہے‘ نہ کم کیا جاسکتا ہے۔ محروم کرنا تو دور کی بات ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمرو بن خارجہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیا تو فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے (تو تم سمجھ لو) وارث کے لیے وصیت نہیں ہے.“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اس کا حق دے دیا ہے، اور اس کے حصے متعین کر دیے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Amr bin Kharijah said: "The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) delivered a Khutbah and said: 'Allah has given every person who has rights his due, and there is no bequest to an heir.