باب: جب میت اپنے قریبی رشتہ داروں کے لیے وصیت کردے (تو مراد کون لوںگ ہوں گے؟)
)
Sunan-nasai:
The Book of Wills
(Chapter: When One Exhorts His Closest Kinsmen)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3644.
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری: ﴿وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ﴾ ”اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے۔“ تو رسول اللہﷺ نے قریش کو دعوت دی۔ آپ نے عمومی طور پر بھی سب کو ڈرایا اور خاص خاص نام لے کر بھی۔ آپ نے فرمایا: ”اے کعب بن لؤیّ کی اولاد! اے عبد مناف کی اولاد! اے ہاشم کی اولاد! اے عبدالمطلب کی اولاد! اپنے آپ کو آگ سے بچالو۔ اے فاطمہ! تو بھی اپنے آپ کو آگ سے بچالے۔ میں تمہارے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا۔ البتہ میری تم سے رشتہ داری ہے۔ میں اس کے تقاضے پورے کرتا رہوں گا۔“
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قریبی رشتہ داروں سے مراد پورا قبیلہ ہے‘ خواہ مسلم ہوں یاکافر۔ وراثت میں چونکہ کفر مانع ہے‘ لہٰذا رشتہ داروں کے لیے وصیت کی صورت میں کافر رشتہ داروں کو نہیں شامل کیا جائے گا۔ (2) ”آگ سے بچالو“ یعنی جہنم کی آگ سے بچالو۔ کفر وشرک کو چھوڑ کر اور میری اطاعت کرکے۔ (3 ”اختیار نہیں رکھتا“ کہ تمہیں اللہ کی رحمت دے سکوں یا تم سے اس کا عذاب کو روک لوں۔ باقی رہی شفاعت تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی اجازت کے ساتھ مفید ہے‘ لہٰذا اس میں بھی ”مختار کل“ نہیں۔ (4) رشتہ داری کے تقاضوں سے مراد دنیوی لین دین‘ ہمدردی اور تبلیغ وغیرہ ہیں۔ (5) تبلیغ میں رشتہ داری کو مقدم کرنے کا مقصد بھی ان کی قرابت کا حق ادا کرنا اور ان پر حجت قائم کرنا ہے تاکہ غیر قرابت داروں کو اعتراض کا موقع نہ مل سکا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3648
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3646
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3674
تمہید کتاب
وصیت سے مراد وہ باتیں ہیں جو کوئی شخص اپنی وفات سے مابعد کے لیے اپنے مال واولاد کے متعلق کرے۔ وصیت کی دوقسمیں ہیں: مالی وصیت۔ دیگر امور سے متعلق وصیت۔ وراثت کے احکام نازل ہونے سے پہلے مال کے بارے میں وصیت کرنا فرض تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہر وارث کو اس کا مقرر حصہ دے دیا اور رسول اللہﷺ نے اس کی وضاحت فرمادی تو وصیت کرنے کا وجوب ساقط ہوگیا‘ تاہم کسی ناداررشتہ دار کو یا صدقہ کرنے کی وصیت سے منع کردیا گیا ہے۔ اب ایک تہائی مال کے بارے میں وصیت واجب العمل ہوگی۔ اس سے زائد ورثاء کی مرضی پر موقوف ہے۔ مالی وصیت کسی وراثت کے بارے میں نہیں کی جاسکتی‘ یعنی وصیت کی وجہ سے وراث کا حصہ کم ہوسکتا ہے نہ زیادہ۔دیگر امور کے بارے میں انسان کوئی وصیت کرنا چاہتا ہے تو اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود ہونی چاہیے اور اس بارے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے‘ مثلاً: کوئی شخص کاروباری معاملات یا لین دین کے بارے میں معلومات کرنا چاہتا ہے تو گواہوں کی موجودگی میں یا تحریری طور پر وصیت کرے۔ کوئی شخص اگر سمجھتا ہے کہ اس کے ورثاء اس کے فوت ہونے پر بدعات وخرافات یا غیر شرعی امور کے مرتکب ہوں گے یا خواتین نوحہ کریں گی یا اس کی اولاد کو دین سے برگشتہ کیا جائے گا تو ایسے اجمور کے بارے میں وصیت کرنا ضروری ہے تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں براءی الذمہ ہوسکے۔ کسی کو وراثت سے محروم کرنا‘ کسی پر ظلم کرنا یا قطعی رحمی کی وصیت کرنا حرام ہے جس کا وبال وفات کے بعد انسان کو بھگتنا پڑے گا‘ نیز ورثاء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی ظالمانہ یا غیر شرعی وصیت کو نافذ نہ کریں۔
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری: ﴿وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ﴾ ”اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے۔“ تو رسول اللہﷺ نے قریش کو دعوت دی۔ آپ نے عمومی طور پر بھی سب کو ڈرایا اور خاص خاص نام لے کر بھی۔ آپ نے فرمایا: ”اے کعب بن لؤیّ کی اولاد! اے عبد مناف کی اولاد! اے ہاشم کی اولاد! اے عبدالمطلب کی اولاد! اپنے آپ کو آگ سے بچالو۔ اے فاطمہ! تو بھی اپنے آپ کو آگ سے بچالے۔ میں تمہارے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا۔ البتہ میری تم سے رشتہ داری ہے۔ میں اس کے تقاضے پورے کرتا رہوں گا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قریبی رشتہ داروں سے مراد پورا قبیلہ ہے‘ خواہ مسلم ہوں یاکافر۔ وراثت میں چونکہ کفر مانع ہے‘ لہٰذا رشتہ داروں کے لیے وصیت کی صورت میں کافر رشتہ داروں کو نہیں شامل کیا جائے گا۔ (2) ”آگ سے بچالو“ یعنی جہنم کی آگ سے بچالو۔ کفر وشرک کو چھوڑ کر اور میری اطاعت کرکے۔ (3 ”اختیار نہیں رکھتا“ کہ تمہیں اللہ کی رحمت دے سکوں یا تم سے اس کا عذاب کو روک لوں۔ باقی رہی شفاعت تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی اجازت کے ساتھ مفید ہے‘ لہٰذا اس میں بھی ”مختار کل“ نہیں۔ (4) رشتہ داری کے تقاضوں سے مراد دنیوی لین دین‘ ہمدردی اور تبلیغ وغیرہ ہیں۔ (5) تبلیغ میں رشتہ داری کو مقدم کرنے کا مقصد بھی ان کی قرابت کا حق ادا کرنا اور ان پر حجت قائم کرنا ہے تاکہ غیر قرابت داروں کو اعتراض کا موقع نہ مل سکا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت: «وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ» نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے قریش کو بلایا چنانچہ قریش سبھی لوگ اکٹھا ہو گئے، تو آپ نے عام و خاص سبھوں کو مخاطب کر کے فرمایا: ”اے بنی کعب بن لوئی! اے بنی مرہ بن کعب! اے بنی عبد شمس! اے بنی عبد مناف! اے بنی ہاشم اور اے بنی عبدالمطلب! تم سب اپنے آپ کو آگ سے بچا لو اور اے فاطمہ (فاطمہ بنت محمد) تم اپنے آپ کو آگ سے بچا لو کیونکہ میں اللہ کے عذاب کے سامنے تمہارے کچھ بھی کام نہیں آ سکتا سوائے اس کے کہ ہمارا تم سے رشتہ داری ہے جو میں (دنیا میں) اس کی تری سے تر رکھوں گا.“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی دنیا میں تمہارے ساتھ برابر صلہ رحمی کرتا رہوں گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Hurairah said: "When the following was revealed: 'And warn your tribe (O Muhammad) of near kindred,' the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) called the Quraish and they gathered, and he spoke in general and specific terms, then he said: 'O Banu Ka'b bin Lu'ayy! O Banu Murrah bin Ka'b! O Banu 'Abd Shams! O Banu 'Abd Manaf! O Banu Hisham! O Banu 'Abdul-Muttalib! Save yourselves from the Fire! O Fatimah! Save yourself from the Fire. I cannot avail you anything before Allah, but I will uphold the ties of kinship with you.