Sunan-nasai:
The Book Of Fighting (The Prohibition Of Bloodshed)
(Chapter: The Prohibition of Bloodshed)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3979.
حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے مروی ہے کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک آدمی آپ کے پاس آیا اور اس نے آپ سے خفیہ طور پر بات چیت کی۔ آپ نے پوچھا: ”اسے قتل کر دو۔“ پھر آپ نے فرمایا: ”کیا وہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کی گواہی دیتا ہے؟“ اس شخص نے کہا: جی ہاں، لیکن وہ جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”پھر اسے قتل نہ کرو کیونکہ مجھے اس وقت تک لوگوں سے لڑنے کی اجازت ہے جب تک وہ کلمہ نہ پڑھ لیں۔ اگر وہ یہ کلمہ پڑھ لیں تو انہوں نے اپنے خون و مال مجھ سے محفوظ کر لیے الا یہ کہ ان پر اسلام کا حق بنتا ہو۔ ان کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے۔“
تشریح:
(1) ”خفیہ بات چیت کی“ یعنی کسی اور شخص کے بارے میں کہ اس نے یہ کام کیا ہے یا یہ کام کیا ہے۔ واللہ أعلم۔ (2) ”اسے قتل کر دو“ اس سے مراد وہ شخص ہے جس کی شکایت کی گئی تھی، لیکن پھر پتا چلا کہ اس نے کلمہ پڑھ لیا ہے اور مسلمان ہو چکا ہے تو آپ نے اپنا پہلا حکم واپس فرما لیا کیونکہ مسلمان کا قتل ناجائز ہے۔ (3) اس میں ان لوگوں کے لیے تنبیہ ہے جو مسلمانوں کو ان کے بعض تاویلی عقائد کی وجہ سے کافر سمجھتے ہیں اور ان کے قتل کو جائز بلکہ کار ثواب جانتے ہیں۔ یاد رہے حدود اللہ کا نفاذ حکومت کا کام ہے افراد کا نہیں اور اسلام میں مقررہ حدود کے علاوہ کسی مسلمان کو کسی عقیدے یا عمل کی وجہ سے قتل کرنا عظیم گناہ ہے۔ قاتل جہنمی ہو گا، خواہ وہ کتنے ہی خوش نما نعرے کی بنیاد پر قتل کرے۔ (4) ”حساب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے“ کیونکہ یہ اس کا منصب ہے، ہمارا منصب نہیں۔ حدود شرعیہ کے علاوہ باقی عقائد اور گناہوں کی سزا اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔ ہم اس میں دخل نہیں دے سکتے۔ (5) اگر کوئی مسلمان شرک یا کفر کا ارتکاب کرے تو اسے اسلام کی دعوت دے کر اس پر حجت قائم کی جائے گی اور اگر وہ اپنے شرک و کفر پر اصرار کرے تو شرعی عدالت اس کے قتل کا حکم جاری کر دے۔
حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے مروی ہے کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک آدمی آپ کے پاس آیا اور اس نے آپ سے خفیہ طور پر بات چیت کی۔ آپ نے پوچھا: ”اسے قتل کر دو۔“ پھر آپ نے فرمایا: ”کیا وہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کی گواہی دیتا ہے؟“ اس شخص نے کہا: جی ہاں، لیکن وہ جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”پھر اسے قتل نہ کرو کیونکہ مجھے اس وقت تک لوگوں سے لڑنے کی اجازت ہے جب تک وہ کلمہ نہ پڑھ لیں۔ اگر وہ یہ کلمہ پڑھ لیں تو انہوں نے اپنے خون و مال مجھ سے محفوظ کر لیے الا یہ کہ ان پر اسلام کا حق بنتا ہو۔ ان کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”خفیہ بات چیت کی“ یعنی کسی اور شخص کے بارے میں کہ اس نے یہ کام کیا ہے یا یہ کام کیا ہے۔ واللہ أعلم۔ (2) ”اسے قتل کر دو“ اس سے مراد وہ شخص ہے جس کی شکایت کی گئی تھی، لیکن پھر پتا چلا کہ اس نے کلمہ پڑھ لیا ہے اور مسلمان ہو چکا ہے تو آپ نے اپنا پہلا حکم واپس فرما لیا کیونکہ مسلمان کا قتل ناجائز ہے۔ (3) اس میں ان لوگوں کے لیے تنبیہ ہے جو مسلمانوں کو ان کے بعض تاویلی عقائد کی وجہ سے کافر سمجھتے ہیں اور ان کے قتل کو جائز بلکہ کار ثواب جانتے ہیں۔ یاد رہے حدود اللہ کا نفاذ حکومت کا کام ہے افراد کا نہیں اور اسلام میں مقررہ حدود کے علاوہ کسی مسلمان کو کسی عقیدے یا عمل کی وجہ سے قتل کرنا عظیم گناہ ہے۔ قاتل جہنمی ہو گا، خواہ وہ کتنے ہی خوش نما نعرے کی بنیاد پر قتل کرے۔ (4) ”حساب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے“ کیونکہ یہ اس کا منصب ہے، ہمارا منصب نہیں۔ حدود شرعیہ کے علاوہ باقی عقائد اور گناہوں کی سزا اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔ ہم اس میں دخل نہیں دے سکتے۔ (5) اگر کوئی مسلمان شرک یا کفر کا ارتکاب کرے تو اسے اسلام کی دعوت دے کر اس پر حجت قائم کی جائے گی اور اگر وہ اپنے شرک و کفر پر اصرار کرے تو شرعی عدالت اس کے قتل کا حکم جاری کر دے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
نعمان بن بشیر ؓ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے کہ ایک شخص نے آ کر آپ سے رازدارانہ گفتگو کی۔ آپ نے فرمایا: ”اسے قتل کر دو“، پھر آپ نے فرمایا: ”کیا وہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں؟“ کہا: جی ہاں، مگر اپنے کو بچانے کے لیے وہ ایسا کہتا ہے، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اسے قتل نہ کرو۔ اس لیے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں جب تک کہ وہ ” لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ“ نہ کہیں: جب وہ اسے کہہ لیں تو انہوں نے مجھ سے اپنے خون اور اپنے مال کو محفوظ کر لیا، مگر اس کے (جان و مال کے) حق کے بدلے، اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے.“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : مزی نے تحفۃ الأشراف (۹/۲۱ ) میں اس حدیث کے ذکر کے بعد نسائی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ”اسود “ کی روایت صحیح نہیں ہے۔ (جنہوں نے یہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کی مسند سے روایت کیا ہے، صحیح اگلی پانچ روایتیں ہیں، جن میں یہ حدیث اوس رضی اللہ عنہ کی مسند سے روایت کی گئی ہے)۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that An-Nu'man bin Bashir said: "We were with the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وسلم and a man came and whispered to him. He said: 'Kill him.' Then he said: 'Does he bear witness to La ilaha illallah (there is none worthy of worship except Allah)?' He said: 'Yes, but he is only saying it to protect himself.' The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وسلم said: 'Do not kill him, for I have been commanded to fight the people until they say La ilaha illallah, and if they say it, their blood and their wealth are safe from me, except for a right that is due, and their reckoning will be with Allah.