باب: نافع کی حدیث کے الفاظ میں (راویوں کے) اختلاف کا بیان
)
Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Mentioning the Differneces Reported From Nafi)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4465.
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”خرید و فروخت کرنے والے دو اشخاص میں سے ہر ایک کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ جدا ہونے سے قبل سودا واپس کرے، البتہ بیع خیار میں ایسے نہیں ہوتا۔“
تشریح:
(1) اس حدیث مبارکہ سے خرید و فروخت کرنے والوں کے اختیار کا مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ بائع اور مشتری، دونوں کو اس وقت تک سودا کرنے یا نہ کرنے کا حاصل ہے جب تک کہ وہ اس مجلس سے الگ نہ ہو جائیں۔ جب وہ ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں تو اختیار ختم ہو جائے گا، تاہم اگر وہ کچھ وقت تک ایک دوسرے کو سوچنے سمجھنے اور سودا کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دے دیں تو پھر مقررہ وقت تک اختیار باقی رہے گا۔ وہ وقت گزر جانے کے بعد سودا پکا ہو جائے گا اور اختیار بھی ختم ہو جائے گا۔ (2) اس حدیث سے بیع خیار کا، یعنی ایک دوسرے کو یا کسی ایک کا دوسرے کو اختیار دینے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ (3) بیع خیار سے مراد وہ بیع ہے جس میں دونوں میں سے ہر ایک نے بیع کرتے وقت واپسی کا اختیار ختم کر دیا ہو اور کہہ دیا ہو کہ اگر واپس کرنا ہے تو ابھی کر لو ورنہ واپسی نہیں ہو گی۔ ایسی صورت میں مجلس بیع قائم رہنے کے باوجود اختیار نہیں رہے گا۔ بیع خیار کے ایک دوسرے معنیٰ بھی ہیں: وہ بیع جس میں زیادہ مدت (مثلاً: تین دن وغیرہ) تک واپسی کا اختیار رکھ لیا گیا ہو تو ایسی بیع میں مجلس برخاست ہونے کے باوجود مقررہ وقت تک واپسی کا اختیار رہے گا۔ دونوں مفہوم صحیح ہیں۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4481
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4465
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4389
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4465
٦
ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4476
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4477
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4470
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
تمہید باب
اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت نافع سے یہ روایت بیان کرنے والے ان کے سات شاگرد ہیں اور ان ساتوں کے بیان کردہ الفاظ میں کچھ نہ کچھ فرق ہے۔ امام نافع سے مذکورہ روایت بیان کرنے والے، ان کے درج ذیل سات شاگرد ہیں: ٭ پہلی سند میں (امام) مالک عن نافع ٭ دوسری میں عبیداللہ عن نافع ٭ تیسری میں إسماعیل (ابن امیۃ) عن نافع ٭چوتھی میں ابن جریج قال: أملی علی نافع- ٭ پانچویں میں أیوب عن نافع، پھر لیث عن نافع اور ٭ساتویں سند میں یحییٰ بن سعید عن نافع- ان سات شاگردوں کی بیان کردہ روایات کو سرسری طور پر دیکھنے سے ہی، ان کے بیان کردہ الفاظ کا فرق معلوم ہو جاتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”خرید و فروخت کرنے والے دو اشخاص میں سے ہر ایک کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ جدا ہونے سے قبل سودا واپس کرے، البتہ بیع خیار میں ایسے نہیں ہوتا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث مبارکہ سے خرید و فروخت کرنے والوں کے اختیار کا مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ بائع اور مشتری، دونوں کو اس وقت تک سودا کرنے یا نہ کرنے کا حاصل ہے جب تک کہ وہ اس مجلس سے الگ نہ ہو جائیں۔ جب وہ ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں تو اختیار ختم ہو جائے گا، تاہم اگر وہ کچھ وقت تک ایک دوسرے کو سوچنے سمجھنے اور سودا کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دے دیں تو پھر مقررہ وقت تک اختیار باقی رہے گا۔ وہ وقت گزر جانے کے بعد سودا پکا ہو جائے گا اور اختیار بھی ختم ہو جائے گا۔ (2) اس حدیث سے بیع خیار کا، یعنی ایک دوسرے کو یا کسی ایک کا دوسرے کو اختیار دینے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ (3) بیع خیار سے مراد وہ بیع ہے جس میں دونوں میں سے ہر ایک نے بیع کرتے وقت واپسی کا اختیار ختم کر دیا ہو اور کہہ دیا ہو کہ اگر واپس کرنا ہے تو ابھی کر لو ورنہ واپسی نہیں ہو گی۔ ایسی صورت میں مجلس بیع قائم رہنے کے باوجود اختیار نہیں رہے گا۔ بیع خیار کے ایک دوسرے معنیٰ بھی ہیں: وہ بیع جس میں زیادہ مدت (مثلاً: تین دن وغیرہ) تک واپسی کا اختیار رکھ لیا گیا ہو تو ایسی بیع میں مجلس برخاست ہونے کے باوجود مقررہ وقت تک واپسی کا اختیار رہے گا۔ دونوں مفہوم صحیح ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”خریدنے اور بیچنے والا جب تک الگ الگ نہ ہو جائیں دونوں کو اپنے ساتھی پر اختیار رہتا ہے، سوائے اس بیع کے جس میں اختیار کی شرط ہو۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی: وہ معاملہ جس میں طرفین سے یہ طے ہو کہ فلان تاریخ تک یا اتنے دن تک معاملہ کو ختم کرنے کا اختیار رہے گا، اس معاملہ میں مقررہ مدت تک حق اختیار اور حاصل رہے گا، باقی دیگر معاملات میں صرف معاملہ کی مجلس ختم ہونے تک اختیار رہے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Malik, from Nafi from'Abdullah bin 'Umar that the Messenger of Allah (ﷺ) said: "The two parties to a transaction both have the choice so long as they both chosen to conclude the transaction." (Sahih)