Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Selling By Auction)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4508.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک پیالہ اور ایک ٹاٹ نیلامی کے ذریعے سے بیچا تھا۔
تشریح:
(1) اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک انصاری آدمی آپ کے پاس کچھ مانگنے آیا۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تمہارے گھر میں کوئی چیز (موجود) ہے؟“ اس نے کہا: ہاں، ایک کمبل ہے۔ ہم آدھا اوڑھ لیتے ہیں اور آدھا نیچے بچھاتے ہیں۔ اور ایک پیالہ ہے جس میں پانی پیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”دونوں چیزیں میرے پاس لے آؤ۔“ وہ شخص دونوں چیزیں لے آتا تو نبی ﷺ نے دو درہم میں بیچ کر رقم اس انصاری کو دے دی اور فرمایا: ”ایک درہم کا کھانے پینے کا سامان خرید کر گھر والوں کو دے دو اور دوسرے درہم کا کلہاڑا خرید کر میرے پاس لے آؤ۔“ اس شخص نے اسی طرح کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس (کلہاڑے) میں اپنے ہاتھ مبارک سے دستہ ٹھونک دیا اور فرمایا: ”جاؤ، لکڑیاں کاٹو اور بیچو۔ پندرہ دن تک میں تمہیں نہ دیکھوں۔“ وہ شخص چلا گیا، لکڑیاں کاٹتا اور فروخت کرتا رہا۔ اس کے بعد پھر وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس کے پاس دس درہم (جمع ہو چکے) تھے۔ آپ نے فرمایا: ”کچھ رقم سے کھانے پینے کی چیزیں خرید لو اور کچھ رقم کا کپڑا خرید لو۔“ پھر آپ نے فرمایا: ”یہ (محنت مزدوری کر کے کمانا) تیرے لیے اس سے بہت بہتر ہے کہ تو قیامت کے دن آئے اور (لوگوں سے) مانگنے کی وجہ سے تیرا چہرہ داغ دار ہو … الخ۔ (سنن أبي داود، الزکاة، حدیث: ۱۶۴۱، و سنن ابن ماجه، التجارات، حدیث: ۲۱۹۸) (2) ”نیلامی کے ذریعے بیچا“ اسی مذکورہ حدیث میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا: ”انہیں کون خریدے گا؟“ ایک شخص نے کہا: میں ایک درہم میں خریدتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”اس سے زیادہ کون دے گا؟“ ایک دوسرے شخص نے کہا: میں دو درہم میں خریدتا ہوں۔ آپ نے اسے بیچ دیا۔ (سنن أبي داود، الزکاة، حدیث: ۱۶۴۱، و سنن ابن ماجه: التجارات، حدیث: ۲۱۹۸) ایسی بیع کو نیلامی کی بیع کہا جاتا ہے جس میں بیچنے والا پہلی پیش کش پر راضی نہیں ہوتا، لہٰذا وہ نئے شخص سے نئے بھاؤ کا مطالبہ کرتا ہے، خواہ اسے دس مرتبہ ایسا کرنا پڑے۔ جس شخص کے بھاؤ کو وہ پسند کرے گا، اسے بیچ دے گا۔ اس بیع میں اصولی طور پر کوئی خرابی نہیں کیونکہ بیچنے والے نے پہلے خریدار کا بھاؤ رد کر دیا، لہٰذا نئے خریدار کے لیے نیا بھاؤ لگانا جائز ہے۔ بھاؤ پر بھاؤ اس وقت منع ہے جب خریدار اور بیچنے والا آپس میں بھاؤ کی بحت کر رہے ہوں اور رد و قبول کا فیصلہ نہ ہوا ہو، یا بھاؤ طے ہو گیا ہو اور دونوں نے قبول کر لیا ہو۔ نیلامی میں یہ خرابی نہیں، لہٰذا یہ بیع جائز ہے، البتہ اس سے مہنگائی پیدا ہونے کا امکان ہے کیونکہ بسا اوقات خریدار حضرات ضد میں بھاؤ بڑھانا شرع کر دیتے ہیں، اس لیے بلا ضرورت یہ طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے تو اس فقیر کے مفاد کی خاطر یہ طریقہ اختیار فرمایا تھا۔ یہ بیع اس وقت ہی ہونی چاہیے جب چیز فروخت کرنا مقصود ہو۔ اگر مقصد چیز فروخت کرنا نہ ہو بلکہ نیلامی صرف قیمت بڑھانے کے لیے ہو تو پھر نیلامی کی بیع ناجائز ہے۔ ہاں، اگر نیلامی سے مہنگائی نہ بڑھتی ہو تو اس بیع میں کوئی حرج نہیں۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4524
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4508
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4432
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4508
٦
ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4519
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4520
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4512
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک پیالہ اور ایک ٹاٹ نیلامی کے ذریعے سے بیچا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک انصاری آدمی آپ کے پاس کچھ مانگنے آیا۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تمہارے گھر میں کوئی چیز (موجود) ہے؟“ اس نے کہا: ہاں، ایک کمبل ہے۔ ہم آدھا اوڑھ لیتے ہیں اور آدھا نیچے بچھاتے ہیں۔ اور ایک پیالہ ہے جس میں پانی پیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”دونوں چیزیں میرے پاس لے آؤ۔“ وہ شخص دونوں چیزیں لے آتا تو نبی ﷺ نے دو درہم میں بیچ کر رقم اس انصاری کو دے دی اور فرمایا: ”ایک درہم کا کھانے پینے کا سامان خرید کر گھر والوں کو دے دو اور دوسرے درہم کا کلہاڑا خرید کر میرے پاس لے آؤ۔“ اس شخص نے اسی طرح کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس (کلہاڑے) میں اپنے ہاتھ مبارک سے دستہ ٹھونک دیا اور فرمایا: ”جاؤ، لکڑیاں کاٹو اور بیچو۔ پندرہ دن تک میں تمہیں نہ دیکھوں۔“ وہ شخص چلا گیا، لکڑیاں کاٹتا اور فروخت کرتا رہا۔ اس کے بعد پھر وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس کے پاس دس درہم (جمع ہو چکے) تھے۔ آپ نے فرمایا: ”کچھ رقم سے کھانے پینے کی چیزیں خرید لو اور کچھ رقم کا کپڑا خرید لو۔“ پھر آپ نے فرمایا: ”یہ (محنت مزدوری کر کے کمانا) تیرے لیے اس سے بہت بہتر ہے کہ تو قیامت کے دن آئے اور (لوگوں سے) مانگنے کی وجہ سے تیرا چہرہ داغ دار ہو … الخ۔ (سنن أبي داود، الزکاة، حدیث: ۱۶۴۱، و سنن ابن ماجه، التجارات، حدیث: ۲۱۹۸) (2) ”نیلامی کے ذریعے بیچا“ اسی مذکورہ حدیث میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا: ”انہیں کون خریدے گا؟“ ایک شخص نے کہا: میں ایک درہم میں خریدتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”اس سے زیادہ کون دے گا؟“ ایک دوسرے شخص نے کہا: میں دو درہم میں خریدتا ہوں۔ آپ نے اسے بیچ دیا۔ (سنن أبي داود، الزکاة، حدیث: ۱۶۴۱، و سنن ابن ماجه: التجارات، حدیث: ۲۱۹۸) ایسی بیع کو نیلامی کی بیع کہا جاتا ہے جس میں بیچنے والا پہلی پیش کش پر راضی نہیں ہوتا، لہٰذا وہ نئے شخص سے نئے بھاؤ کا مطالبہ کرتا ہے، خواہ اسے دس مرتبہ ایسا کرنا پڑے۔ جس شخص کے بھاؤ کو وہ پسند کرے گا، اسے بیچ دے گا۔ اس بیع میں اصولی طور پر کوئی خرابی نہیں کیونکہ بیچنے والے نے پہلے خریدار کا بھاؤ رد کر دیا، لہٰذا نئے خریدار کے لیے نیا بھاؤ لگانا جائز ہے۔ بھاؤ پر بھاؤ اس وقت منع ہے جب خریدار اور بیچنے والا آپس میں بھاؤ کی بحت کر رہے ہوں اور رد و قبول کا فیصلہ نہ ہوا ہو، یا بھاؤ طے ہو گیا ہو اور دونوں نے قبول کر لیا ہو۔ نیلامی میں یہ خرابی نہیں، لہٰذا یہ بیع جائز ہے، البتہ اس سے مہنگائی پیدا ہونے کا امکان ہے کیونکہ بسا اوقات خریدار حضرات ضد میں بھاؤ بڑھانا شرع کر دیتے ہیں، اس لیے بلا ضرورت یہ طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے تو اس فقیر کے مفاد کی خاطر یہ طریقہ اختیار فرمایا تھا۔ یہ بیع اس وقت ہی ہونی چاہیے جب چیز فروخت کرنا مقصود ہو۔ اگر مقصد چیز فروخت کرنا نہ ہو بلکہ نیلامی صرف قیمت بڑھانے کے لیے ہو تو پھر نیلامی کی بیع ناجائز ہے۔ ہاں، اگر نیلامی سے مہنگائی نہ بڑھتی ہو تو اس بیع میں کوئی حرج نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک پیالا اور ایک کمبل نیلام کیا۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: انس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث سند کے لحاظ سے ضعیف ہے، مگر خرید و فروخت کے معاملات میں حرمت کی جو بنیاد ہے بیع مزایدہ (نیلام) پر صادق نہیں آتی، کیونکہ اس معاملہ میں بیچنے والے کی رائے کسی بھاؤ پر حتمی اور آخری نہیں اس لیے دوسرے خریدار کو بھاؤ بڑھا کر سودا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from ''Anas bin Malik (RA) that: the Messenger of Allah (ﷺ) sold a drinking bowl and a blanket (for a horse of camel) to the highest bidder.