Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Annulling A Transaction In The Event Of Crop Failure)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4527.
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تو اپنے (مسلمان) بھائی کو پھل بیچے، بعد میں پھل پر کوئی ناگہانی آفت آ جائے تو تیرے لیے اس کی قیمت لینا حلال نہیں۔ تو کس بنا پر اپنے بھائی کا مال نا حق لے گا؟“
تشریح:
(1) مقصود یہ ہے کہ اگر پھل کسی نا گہانی آسمانی یا زمینی آفت وغیرہ کا شکار ہو جائے تو بیچنے والے کو چاہیے کہ وہ اس آفت کی تلافی کرے۔ بہتر تو یہ ہے کہ ساری رقم ہی واپس کر دے ورنہ حتیٰ المقدور بھرپور تعاون کرے، بصورت دیگر وہ اپنے مسلمان بھائی کا مال باطل طریقے سے کھانے کا مصداق قرار پائے گا۔ (2) اس حدیث سے ہر قسم کے پھلوں کی خرید و فروخت کا جواز ثابت ہو رہا ہے، خواہ وہ جس مرحلے میں بھی ہوں، حالانکہ گزشتہ احادیث سے کچے، یعنی ایسے پھلوں کی خرید و فروخت ممنوع قرار پائی ہے جو کھانے کے قابل نہ ہوں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ حدیث سے بھی وہی پھل مراد ہیں جو کھانے کے قابل ہوں، انہی کی خرید و فروخت جائز ہو گی، ہاں ضرورت کے تحت اگر کچے پھلوں کی ضرورت ہو تو پھر اسی وقت کاٹنے کی شرط لازمی ہے، وگرنہ اس کی اجازت نہیں، جمہور اہل علم کی رائے یہی ہے۔ (3) کسی بھی مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان بھائی کا مال ناحق اور باطل طریقے سے کھانا منع ہے۔ قرآن و حدیث کے دیگر دلائل کے علاوہ یہ حدیث بھی اس کی صریح دلیل ہے۔ (4) انسانیت اور اسلام کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جو پھل آسمانی آفت سے ضائع ہو گیا، اس کی قیمت وصول نہ کی جائے کیونکہ اگر یہ پھل مالک کے ہاں آسمانی آفت سے ضائع ہو جاتا تو پھر بھی تو اسے برداشت کرنا ہی پڑتا۔ اب بھی برداشت کرنا چاہیے۔ اگر وہ خریدار سے اس پھل کی قیمت وصول کر لے گا تو یہ ناحق اور ناجائز ہو گا۔ امام احمد اور محدثین اسی کے قائل ہیں کہ نا گہانی آفافت کا نقصان معاف کرنا ضروری ہے۔ دیگر حضرات نے اسے مستحب قرار دیا ہے کیونکہ طے شدہ سودے سے دستبردار ہونے پر کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ظاہر حدیث اس کے خلاف ہے کیونکہ انسانیت اور اسلامی اخوت کا تقاضا ہر اصول سے مقدم ہے۔ ان اصولی حضرات نے اپنے اصول کو قائم رکھنے کے لیے حدیث کی دوراز کار تاو یلات کی ہیں جو ان کی مجبوری ہے لیکن انسانیت اور اخوت اس حدیث پر عمل کرنے ہی میں ہے۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4544
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4527
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4451
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4527
٦
ترقيم شرکة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4539
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4540
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4531
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تو اپنے (مسلمان) بھائی کو پھل بیچے، بعد میں پھل پر کوئی ناگہانی آفت آ جائے تو تیرے لیے اس کی قیمت لینا حلال نہیں۔ تو کس بنا پر اپنے بھائی کا مال نا حق لے گا؟“
حدیث حاشیہ:
(1) مقصود یہ ہے کہ اگر پھل کسی نا گہانی آسمانی یا زمینی آفت وغیرہ کا شکار ہو جائے تو بیچنے والے کو چاہیے کہ وہ اس آفت کی تلافی کرے۔ بہتر تو یہ ہے کہ ساری رقم ہی واپس کر دے ورنہ حتیٰ المقدور بھرپور تعاون کرے، بصورت دیگر وہ اپنے مسلمان بھائی کا مال باطل طریقے سے کھانے کا مصداق قرار پائے گا۔ (2) اس حدیث سے ہر قسم کے پھلوں کی خرید و فروخت کا جواز ثابت ہو رہا ہے، خواہ وہ جس مرحلے میں بھی ہوں، حالانکہ گزشتہ احادیث سے کچے، یعنی ایسے پھلوں کی خرید و فروخت ممنوع قرار پائی ہے جو کھانے کے قابل نہ ہوں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ حدیث سے بھی وہی پھل مراد ہیں جو کھانے کے قابل ہوں، انہی کی خرید و فروخت جائز ہو گی، ہاں ضرورت کے تحت اگر کچے پھلوں کی ضرورت ہو تو پھر اسی وقت کاٹنے کی شرط لازمی ہے، وگرنہ اس کی اجازت نہیں، جمہور اہل علم کی رائے یہی ہے۔ (3) کسی بھی مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان بھائی کا مال ناحق اور باطل طریقے سے کھانا منع ہے۔ قرآن و حدیث کے دیگر دلائل کے علاوہ یہ حدیث بھی اس کی صریح دلیل ہے۔ (4) انسانیت اور اسلام کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جو پھل آسمانی آفت سے ضائع ہو گیا، اس کی قیمت وصول نہ کی جائے کیونکہ اگر یہ پھل مالک کے ہاں آسمانی آفت سے ضائع ہو جاتا تو پھر بھی تو اسے برداشت کرنا ہی پڑتا۔ اب بھی برداشت کرنا چاہیے۔ اگر وہ خریدار سے اس پھل کی قیمت وصول کر لے گا تو یہ ناحق اور ناجائز ہو گا۔ امام احمد اور محدثین اسی کے قائل ہیں کہ نا گہانی آفافت کا نقصان معاف کرنا ضروری ہے۔ دیگر حضرات نے اسے مستحب قرار دیا ہے کیونکہ طے شدہ سودے سے دستبردار ہونے پر کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ظاہر حدیث اس کے خلاف ہے کیونکہ انسانیت اور اسلامی اخوت کا تقاضا ہر اصول سے مقدم ہے۔ ان اصولی حضرات نے اپنے اصول کو قائم رکھنے کے لیے حدیث کی دوراز کار تاو یلات کی ہیں جو ان کی مجبوری ہے لیکن انسانیت اور اخوت اس حدیث پر عمل کرنے ہی میں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تم نے اپنے (مسلمان) بھائی سے پھل بیچے پھر اچانک ان پر کوئی آفت آ گئی تو تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم اس سے کچھ لو، آخر تم کس چیز کے بدلے میں ناحق اپنے (مسلمان) بھائی کا مال لو گے۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس طرح کے حادثہ میں بیچنے والے کے اوپر لازم ہے کہ خریدار کا جتنا نقصان (خسارہ) ہوا ہے اتنے کی وہ بھرپائی کر دے ورنہ وہ مسلمان بھائی کا مال کھا لینے کا مرتکب گردانا جائے گا، اور یہ اس صورت میں ہے جب پھل ابھی پکے نہ ہوئے ہوں، یا بیچنے والے نے ابھی خریدار کو مکمل قبضہ نہ دیا ہو ، ورنہ پھل کے پک جانے اور قبضہ دے دینے کے بعد بیچنے والے کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے، اس طرح کا معاملہ ایک آدمی کے ساتھ پیش آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیچنے والے سے بھر پائی کرانے کی بجائے عام لوگوں سے خریدار پر صدقہ و خیرات کرنے کی اپیل کی جیسا کہ حدیث نمبر: ۴۵۳۴ میں آ رہا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jabir said: "The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "If you sell fruits to your brother then the crop fails, it is not permissible for you it takes anything from him. Why would you take the wealth of your brother unlawfully?