باب: کھجور کی بیع کھجور کے بدلے میں کمی بیشی کے ساتھ (جائز نہیں)
)
Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Selling Dates for Dates Of Different Quality)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4558.
حضرت عمر بن خطاب ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سونے کا سودا چاندی کے ساتھ سود ہے الا یہ کہ نقد سود نہیں۔ گندم کا سودا گندم کے ساتھ سود ہے الا یہ کہ نقد ہو۔ اور جو کا سودا جو کے ساتھ سود ہے الا یہ کہ سودا نقد ہو۔“
تشریح:
(1) اس حدیث میں وہ سود بیان کیا گیا ہے جس کا تعلق خرید و فروخت سے ہوتا ہے۔ سود کی دوسری قسم وہ ہے جس کا تعلق لین دین، یعنی تھوڑی چیز قرض دے کر زیادہ چیز لینے کی شرط لگانا۔ اسے قرض کا سود کہتے ہیں۔ خرید و فروخت میں سود یہ ہے کہ دونوں طرف ایک ہی جنس ہو مگر ان میں کمی بیشی کی جائے یا ادھار ہو، سودا نقد نہ ہو، جیسے مندرجہ بالا روایت میں مثالیں دے کر واضح کر دیا گیا ہے، یا پھر جنس تو مختلف ہو مگر سودا ادھار ہو، جیسے کہ پہلی مثال میں صراحت ہے کہ سونا چاندی کے عوض بھی سود ہے جبکہ سودا نقد نہ ہو کیونکہ چیزوں اور جنسوں کے بھاؤ بدلتے رہتے ہیں، لہٰذا جب دونوں طرف ایک ہی جنس ہو یا مختلف جنسیں ہوں، ادھار قطعاََ نہیں ہونا چاہیے، البتہ اگر اجناس مختلف ہوں تو کمی بیشی جائز ہے۔ اگر سودا روپے پیسے کے ساتھ کسی جنس کا ہو، مثلاََ: کھجور، گندم ، جو وغیرہ کا تو اس میں ادھار بھی جائز ہے۔ (2) ”مگر نقد“ عربی میں لفظ ہیں: إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ یعنی دونوں ایک دوسرے سے کہیں لے بھئی اپنا مال۔ جن دونوں یہ کہیں تو لازماََ سودا نقد ہوگا، اس لیے لازم معنیٰ کیا گیا ہے۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4576
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4558
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4482
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4558
٦
ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4571
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4572
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4562
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت عمر بن خطاب ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سونے کا سودا چاندی کے ساتھ سود ہے الا یہ کہ نقد سود نہیں۔ گندم کا سودا گندم کے ساتھ سود ہے الا یہ کہ نقد ہو۔ اور جو کا سودا جو کے ساتھ سود ہے الا یہ کہ سودا نقد ہو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں وہ سود بیان کیا گیا ہے جس کا تعلق خرید و فروخت سے ہوتا ہے۔ سود کی دوسری قسم وہ ہے جس کا تعلق لین دین، یعنی تھوڑی چیز قرض دے کر زیادہ چیز لینے کی شرط لگانا۔ اسے قرض کا سود کہتے ہیں۔ خرید و فروخت میں سود یہ ہے کہ دونوں طرف ایک ہی جنس ہو مگر ان میں کمی بیشی کی جائے یا ادھار ہو، سودا نقد نہ ہو، جیسے مندرجہ بالا روایت میں مثالیں دے کر واضح کر دیا گیا ہے، یا پھر جنس تو مختلف ہو مگر سودا ادھار ہو، جیسے کہ پہلی مثال میں صراحت ہے کہ سونا چاندی کے عوض بھی سود ہے جبکہ سودا نقد نہ ہو کیونکہ چیزوں اور جنسوں کے بھاؤ بدلتے رہتے ہیں، لہٰذا جب دونوں طرف ایک ہی جنس ہو یا مختلف جنسیں ہوں، ادھار قطعاََ نہیں ہونا چاہیے، البتہ اگر اجناس مختلف ہوں تو کمی بیشی جائز ہے۔ اگر سودا روپے پیسے کے ساتھ کسی جنس کا ہو، مثلاََ: کھجور، گندم ، جو وغیرہ کا تو اس میں ادھار بھی جائز ہے۔ (2) ”مگر نقد“ عربی میں لفظ ہیں: إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ یعنی دونوں ایک دوسرے سے کہیں لے بھئی اپنا مال۔ جن دونوں یہ کہیں تو لازماََ سودا نقد ہوگا، اس لیے لازم معنیٰ کیا گیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمر بن خطاب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سونا، چاندی کے بدلے سود ہے، سوائے اس کے کہ نقدا نقد ہو، کھجور کھجور کے بدلے سود ہے، سوائے اس کے کہ نقدا نقد ہو، گیہوں گیہوں کے بدلے سود ہے، سوائے اس کے کہ نقدا نقد ہو، جو جو کے بدلے سود ہے، سوائے اس کے کہ نقدا نقد ہو۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس روایت میں چار ہی چیزوں کا ذکر ہے لیکن ابوسعید رضی اللہ عنہ کی جو صحیحین میں وارد حدیث میں دو چیزوں چاندی اور نمک کا اضافہ ہے، اس طرح ان چھ چیزوں میں «تفاضل» (کمی بیشی) اور «نسیئة» (ادھار) جائز نہیں ہے، اگر ایک ہاتھ سے دے اور دوسرے ہاتھ سے لے تو جائز اور صحیح ہے اور اگر ایک طرف سے بھی ادھار ہو تو یہ سود ہو جائے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Umar bin Al-Khattab said: "The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: '(Exchanging) gold for silver is Riba unless it is done on the spot. (Exchanging) dates for dates is Riba unless it is done on the spot. (Exchanging) wheat for wheat is Riba unless it is done on the spot. (Exchanging) barley is Riba unless it is done on the spot.