Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Seling Gold For Gold)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4572.
حضرت عطاء بن یسار سے منقول ہے کہ حضرت معاویہ ؓ نے سونے یا چاندی کا ایک برتن اس کے وزن سے زیادہ سونے یا چاندی کے عوض خریدا۔ حضرت ابوالدرداء ؓ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس جیسے سودے سے منع فرماتے سنا الا یہ کہ دونوں کا وزن برابر ہو۔
تشریح:
(1) سونے کی خرید و فروخت سونے یا چاندی کی چاندی کے عوض درست ہے بشرطیکہ دونوں طرف سے برابری ہو اور سودا نقد بہ نقد ہو۔ اگر ایسا نہیں تو وہ بیع فاسد اور حرام ہے۔ (2) ”برتن“ عربی میں لفظ سِقَایَة استعمال کیا گیا ہے، یعنی پانی وغیرہ پینے کا برتن۔ ویسے شریعت اسلامیہ میں سونے یا چاندی کے برتن میں کھانے پینے سے روکا گیا ہے۔ ممکن ہے انھوں نے زینت اور آرائش کے لیے خریدا ہو، یا کوئی اور مقصد بھی ہو سکتا ہے، المختصر وہ پینے کے لیے نہیں خرید سکتے۔ (3) ”وزن سے زیادہ“ کیونکہ برتن میں سونے کے علاوہ اس کے بنانے کی اجرت بھی تو شامل ہے لیکن شریعت میں سونے کے بدلے سونے کی بیع میں کمی بیشی منع ہے، لہٰذا اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ اگر سونے کا برتن سونے کے ساتھ ہی خریدنا ہے تو برتن کے برابر سونا دیا جائے اور اجرت الگ چاندی وغیرہ کی صورت میں دی جائے، یا ایسے برتن کا سودا چاندی کے ساتھ کیا جائے اور چاندی کے برتن کا سونے سے تاکہ اجرت بھی وصول ہو جائے اور شرعی ضابطہ بھی برقرار رہے۔ سونے اور چاندی کی باہم بیع میں کمی بیشی کی کوئی حد مقرر نہیں، اس لیے اجرت کو بھی قیمت میں آسانی سے شامل کیا جا سکتا ہے۔ آج کل کرنسی نوٹوں نے ایسے مسائل حل کر دیے ہیں۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4590
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4572
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4496
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4572
٦
ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4585
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4586
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4576
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت عطاء بن یسار سے منقول ہے کہ حضرت معاویہ ؓ نے سونے یا چاندی کا ایک برتن اس کے وزن سے زیادہ سونے یا چاندی کے عوض خریدا۔ حضرت ابوالدرداء ؓ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس جیسے سودے سے منع فرماتے سنا الا یہ کہ دونوں کا وزن برابر ہو۔
حدیث حاشیہ:
(1) سونے کی خرید و فروخت سونے یا چاندی کی چاندی کے عوض درست ہے بشرطیکہ دونوں طرف سے برابری ہو اور سودا نقد بہ نقد ہو۔ اگر ایسا نہیں تو وہ بیع فاسد اور حرام ہے۔ (2) ”برتن“ عربی میں لفظ سِقَایَة استعمال کیا گیا ہے، یعنی پانی وغیرہ پینے کا برتن۔ ویسے شریعت اسلامیہ میں سونے یا چاندی کے برتن میں کھانے پینے سے روکا گیا ہے۔ ممکن ہے انھوں نے زینت اور آرائش کے لیے خریدا ہو، یا کوئی اور مقصد بھی ہو سکتا ہے، المختصر وہ پینے کے لیے نہیں خرید سکتے۔ (3) ”وزن سے زیادہ“ کیونکہ برتن میں سونے کے علاوہ اس کے بنانے کی اجرت بھی تو شامل ہے لیکن شریعت میں سونے کے بدلے سونے کی بیع میں کمی بیشی منع ہے، لہٰذا اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ اگر سونے کا برتن سونے کے ساتھ ہی خریدنا ہے تو برتن کے برابر سونا دیا جائے اور اجرت الگ چاندی وغیرہ کی صورت میں دی جائے، یا ایسے برتن کا سودا چاندی کے ساتھ کیا جائے اور چاندی کے برتن کا سونے سے تاکہ اجرت بھی وصول ہو جائے اور شرعی ضابطہ بھی برقرار رہے۔ سونے اور چاندی کی باہم بیع میں کمی بیشی کی کوئی حد مقرر نہیں، اس لیے اجرت کو بھی قیمت میں آسانی سے شامل کیا جا سکتا ہے۔ آج کل کرنسی نوٹوں نے ایسے مسائل حل کر دیے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ معاویہ ؓ نے پینے کا برتن جو سونے یا چاندی کا تھا اس سے زائد وزن کے بدلے بیچا تو ابو الدرداء ؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس طرح کی بیع سے منع فرماتے ہوئے سنا، سوائے اس کے کہ وہ برابر برابر ہوں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Ata' bin Yasir that: Muawiyah sold a cup of gold or silver for more than its weight. Abu Ad-Darda' said: "I heard the Messenger of Allah (ﷺ) forbid such transactions unless it was like for like.