باب: ایسے ہار کو سونے کے عوض خریدنا جس میں سونے کے علاوہ موتی اور منکے بھی ہوں
)
Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Selling a Necklace Containing Games And Gold For Gold)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4573.
حضرت فضالہ بن عبید ؓ سے روایت ہے کہ میں نے خیبر کے دن ایک ہار بارہ دینار کا خریدا جس میں سونے کے علاوہ موتی اور منکے بھی تھے۔ جب میں نے سونے اور موتی منکوں کو الگ الگ کیا تو اس سے بارہ دینار سے زائد سونا نکل آیا۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ سے ذکر کی گئی تو آپ نے فرمایا: ”اس قسم کی چیز کو نہ بیچا جائے حتیٰ کہ سونے وغیرہ کو الگ الگ کر لیا جائے۔“
تشریح:
(1) مؤلف رحمہ اللہ نے جو عنوان قائم کیا ہے اس کا مقصد سونے کے ایسے ہار کی سونے کے عوض خرید و فروخت کا مسئلہ بیان کرنا ہے جس میں سونے کے علاوہ موتی، نگینے اور منکے وغیرہ بھی ہوں۔ اس کا حکم یہ ہے کہ سونے کے ایسے ہار کی سونے کے عوض خرید و فروخت اس وقت تک حرام ہے جب تک اسے الگ الگ کر کے سونے کا وزن معلوم نہ کر لیا جائے۔ جب سونے کا وزن معلوم ہو جائے تو پھر اس سونے کے برابر سونا دیا جائے اور موتی نگینے اور منکے وغیرہ الگ کر کے ان کی قیمت دی جائے، یا جو بھی معاملہ طے ہو، اس کے مطابق کیا جائے۔ (2) اگر تو ہار وغیرہ اس قسم کا ہو کہ اسے خراب کیے بغیر سونے کو موتیوں سے الگ کیا جا سکتا ہو تو الگ کرنے کے بعد ہر چیز کا الگ الگ سودا کیا جائے تاکہ سود کے شبہ سے حتی الامکان بچاؤ ہو سکے۔ اور اگر الگ الگ کرنے سے ہار خراب ہوتا ہو تو پھر سونے کے ہار کو چاندی، یعنی درہم کے عوض خریدا جائے اور چاندی کے ہار کو سونے، یعنی دینار کے عوض خریدا جائے جیسا کہ حدیث نمبر ۴۵۷۶ میں گزر چکا ہے۔ آج کل قیمت کرنسی نوٹوں کی صورت میں دی جاتی ہے، لہٰذا کوئی مسئلہ پیدا ہی نہیں ہونا چاہیے، اور نہ الگ کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض حضرات نے ایسے ہار کو الگ الگ کیے بغیر کسی بھی صورت میں بیچنے کی نفی کی ہے اور ظاہر الفاظ کو پیش کیا ہے مگر یہ تكلیف مالا یطاق ہے۔ اس طرح تو زیورات کا بیچنا ایک لا یَنْحَل مسئلہ ہوگا۔ الفاظ کے ساتھ ساتھ شریعت کے مقاصد کو بھی نگاہ میں رکھنا چاہیے ورنہ کبھی کبھی مضحکہ خیز نتائج حاصل ہو جاتے ہیں۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4591
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4573
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4497
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4573
٦
ترقيم شرکة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4586
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4587
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4577
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت فضالہ بن عبید ؓ سے روایت ہے کہ میں نے خیبر کے دن ایک ہار بارہ دینار کا خریدا جس میں سونے کے علاوہ موتی اور منکے بھی تھے۔ جب میں نے سونے اور موتی منکوں کو الگ الگ کیا تو اس سے بارہ دینار سے زائد سونا نکل آیا۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ سے ذکر کی گئی تو آپ نے فرمایا: ”اس قسم کی چیز کو نہ بیچا جائے حتیٰ کہ سونے وغیرہ کو الگ الگ کر لیا جائے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) مؤلف رحمہ اللہ نے جو عنوان قائم کیا ہے اس کا مقصد سونے کے ایسے ہار کی سونے کے عوض خرید و فروخت کا مسئلہ بیان کرنا ہے جس میں سونے کے علاوہ موتی، نگینے اور منکے وغیرہ بھی ہوں۔ اس کا حکم یہ ہے کہ سونے کے ایسے ہار کی سونے کے عوض خرید و فروخت اس وقت تک حرام ہے جب تک اسے الگ الگ کر کے سونے کا وزن معلوم نہ کر لیا جائے۔ جب سونے کا وزن معلوم ہو جائے تو پھر اس سونے کے برابر سونا دیا جائے اور موتی نگینے اور منکے وغیرہ الگ کر کے ان کی قیمت دی جائے، یا جو بھی معاملہ طے ہو، اس کے مطابق کیا جائے۔ (2) اگر تو ہار وغیرہ اس قسم کا ہو کہ اسے خراب کیے بغیر سونے کو موتیوں سے الگ کیا جا سکتا ہو تو الگ کرنے کے بعد ہر چیز کا الگ الگ سودا کیا جائے تاکہ سود کے شبہ سے حتی الامکان بچاؤ ہو سکے۔ اور اگر الگ الگ کرنے سے ہار خراب ہوتا ہو تو پھر سونے کے ہار کو چاندی، یعنی درہم کے عوض خریدا جائے اور چاندی کے ہار کو سونے، یعنی دینار کے عوض خریدا جائے جیسا کہ حدیث نمبر ۴۵۷۶ میں گزر چکا ہے۔ آج کل قیمت کرنسی نوٹوں کی صورت میں دی جاتی ہے، لہٰذا کوئی مسئلہ پیدا ہی نہیں ہونا چاہیے، اور نہ الگ کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض حضرات نے ایسے ہار کو الگ الگ کیے بغیر کسی بھی صورت میں بیچنے کی نفی کی ہے اور ظاہر الفاظ کو پیش کیا ہے مگر یہ تكلیف مالا یطاق ہے۔ اس طرح تو زیورات کا بیچنا ایک لا یَنْحَل مسئلہ ہوگا۔ الفاظ کے ساتھ ساتھ شریعت کے مقاصد کو بھی نگاہ میں رکھنا چاہیے ورنہ کبھی کبھی مضحکہ خیز نتائج حاصل ہو جاتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
فضالہ بن عبید ؓ کہتے ہیں کہ خیبر کے دن میں نے ایک ہار جس میں سونا اور نگینے لگے ہوئے تھے، بارہ دینار میں خریدا، پھر میں نے انہیں الگ کیا تو اس میں لگا ہوا سونا بارہ دینار سے زیادہ کا تھا، اس کا ذکر نبی اکرم ﷺ سے کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”جب تک الگ کر لیا جائے اسے نہ بیچا جائے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated the Fadalah bin 'Ubaid said: "On the Day of Khaibar I bought a necklace containing gold and ggems for twelve Dinars. The I took it apart and found that it contatined more than twelve Dinars. Mentiion of that was made to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) and he said: 'It should not be sold until it is taken apart.