Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Selling the Offspring of the Offspring of a Pregnant Animal (Habal Al-Habalah))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4624.
حضرت ابن عمر ؓ سے منقول ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حمل کے حمل کی بیع سے منع فرمایا ہے۔
تشریح:
حدیث:۴۶۲۶ کے فائدے میں اس کے مفہوم کی بابت تفصیلی کلام ہو چکا ہے، تا ہم اس جگہ ایک اہم مسئلے کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے، وہ یہ کہ کسی مجہول یا مبہم مدت کو ادھار کی ادائیگی کی مدت ہرگز نہ ٹھہرایا جائے بلکہ ادھار کی ادائیگی کی مدت کا بالکل واضح تعین ہونا چاہیے۔ اس کے باوجود بھی اگر مقروض شخص وقت مقررہ پر ادائیگی نہ کر سکے تو مزید مہلت مانگ لے۔ اور قرض خواہ کو بھی چاہیے کہ آسانی تک مہلت دے دے کیونکہ یہ بہت افضل عمل ہے۔ اس کی افضیلت کا اندازہ رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث مبارکہ سے لگائیں جس میں آپ نے فرمایا ہے: ”جو شخص کسی کو قرض دے اسے روزانہ اپنے قرض کے برابر صدقہ کرنے کا اجر و ثواب ملتا ہے۔ اور پھر جو شخص مقررہ وقت پر بھی قرض کی ادائیگی نہ کر سکے اور قرض خواہ مقروض کو مزید مہلت دے دے تو اسے روزانہ اپنے دیے ہوئے قرض کی نسبت دگنا مال صدقہ کرنے کا اجرو ثواب ملتا ہے۔“ دیکھیے: (صحيح الترغيب و الترهيب، الصدقات، باب الترغيب في التيسير على المعسرو إنظاره۔۔۔۔۔۔،حديث:۹۰۷) لیکن اس صورت میں مقروض کو سہولت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ادائیگی قرض سے بے فکر بے بیاز نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے جلد از جلد قرض ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنے محسن، یعنی قرض خواہ کے لیے پر خلوص دعائیں کرتے رہنا چاہیے۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4642
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4624
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4545
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4624
٦
ترقيم شرکة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4637
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4638
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4628
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت ابن عمر ؓ سے منقول ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حمل کے حمل کی بیع سے منع فرمایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
حدیث:۴۶۲۶ کے فائدے میں اس کے مفہوم کی بابت تفصیلی کلام ہو چکا ہے، تا ہم اس جگہ ایک اہم مسئلے کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے، وہ یہ کہ کسی مجہول یا مبہم مدت کو ادھار کی ادائیگی کی مدت ہرگز نہ ٹھہرایا جائے بلکہ ادھار کی ادائیگی کی مدت کا بالکل واضح تعین ہونا چاہیے۔ اس کے باوجود بھی اگر مقروض شخص وقت مقررہ پر ادائیگی نہ کر سکے تو مزید مہلت مانگ لے۔ اور قرض خواہ کو بھی چاہیے کہ آسانی تک مہلت دے دے کیونکہ یہ بہت افضل عمل ہے۔ اس کی افضیلت کا اندازہ رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث مبارکہ سے لگائیں جس میں آپ نے فرمایا ہے: ”جو شخص کسی کو قرض دے اسے روزانہ اپنے قرض کے برابر صدقہ کرنے کا اجر و ثواب ملتا ہے۔ اور پھر جو شخص مقررہ وقت پر بھی قرض کی ادائیگی نہ کر سکے اور قرض خواہ مقروض کو مزید مہلت دے دے تو اسے روزانہ اپنے دیے ہوئے قرض کی نسبت دگنا مال صدقہ کرنے کا اجرو ثواب ملتا ہے۔“ دیکھیے: (صحيح الترغيب و الترهيب، الصدقات، باب الترغيب في التيسير على المعسرو إنظاره۔۔۔۔۔۔،حديث:۹۰۷) لیکن اس صورت میں مقروض کو سہولت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ادائیگی قرض سے بے فکر بے بیاز نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے جلد از جلد قرض ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنے محسن، یعنی قرض خواہ کے لیے پر خلوص دعائیں کرتے رہنا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حاملہ کے حمل کو بیچنے سے منع فرمایا۔ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یہ بیع زمانہ جاہلیت میں رائج تھی، آدمی اس شرط پر اونٹ خریدتا تھا کہ جب اونٹنی بچہ جنے گی پھر بچے کا بچہ ہو گا تب وہ اس اونٹ کے پیسے دے گا تو ایسی خرید و فروخت سے روک دیا گیا ہے، کیونکہ اس میں دھوکہ ہے، یہ بیع غرر (دھوکہ والی بیع) کی قبیل سے ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn 'Umar that: the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) forbade selling the offspring of the offspring of a pregnant animal (Habal Al-Habalah)