Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Selling Wine)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4664.
حضرت ابن وعلہ مصری سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے انگور کے نچوڑے ہوئے جوس کے بارے میں پوچھا تو حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اونٹ پر لدی ہوئی شراب کے دو مشکیزے بطور تحفہ پیش کیے۔ نبی اکرم ﷺ نے اسے فرمایا: ”تجھے علم نہیں کہ اللہ عزو جل نے شراب حرام فرما دی ہے؟“ اس نے اپنے پہلو (بیٹھے یا کھڑے ہوئے) ایک شخص سے آہستہ سے کچھ کہا اور جو کچھ اس نے کہا، اسے میں اس طرح نہیں سمجھ سکا جس طرح میں چاہتا تھا، لہٰذا میں نے (اس کی بابت حاضرین میں سے کسی سے) پوچھا۔ نبی اکرم ﷺ نے اس سے پوچھا: ”تو نے آہستہ سے اس کو کیا کہا ہے؟“ اس نے کہا: میں نے اسے شراب فروخت کرنے کو کہا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جس ذات نے شراب کو حرام قرار دیا ہے، اس نے اس کو بیچنا بھی حرام کیا ہے۔“ اس شخص نے دونوں مشکیزوں کے منہ کھول دیے حتیٰ کہ جو کچھ شراب اس میں تھی بہہ گئی۔
تشریح:
(1) شراب کی خرید و فروخت شرعی طور پر ناجائز اور حرام ہے۔ اس بات پر امت مسلمہ کا اجماع ہے۔ (2) معلوم ہوا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جو اس نے تحفتاً شراب پیش کی تھی، وہ سابقہ اباحت کی بنا پر ہی تھی۔ اسے اس کی حرمت کا علم نہیں تھا اسی لیے آپ ﷺ نے اس کا مؤاخذہ نہیں فرمایا۔ معلوم ہوا جو انسان کسی حرام کا ارتکاب کرے یا حرام چیز کو حلال سمجھتا ہو، اور اس حوالے سے اسے واقعی شرعی حکم معلوم نہ ہو تو اسے باخبر کرنا ضروری ہو گا۔ ایسی معصیت اور گناہ کے ارتکاب پر وہ قابل عتاب و عقاب بھی نہیں ہو گا۔ (3) یہ حدیث مبارکہ دلیل ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان سے اس بعض رازوں کی بابت پوچھ سکتا ہے۔ بعد ازاں اگر ان رازوں کو پوشیدہ رکھنا ضروری ہو تو پوشیدہ رکھے ورنہ انھیں ذکر اور ظاہر بھی کیا جا سکتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے جواب کا مطلب ہے کہ انگور کا جوس شراب بنانے کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے۔ اس کا کوئی اور مصرف نہیں، لہٰذا انگور کا جوس نکالنا اور شراب بنانے والوں کو بیچنا منع ہے، البتہ اگر وہ جوس کسی حلال مصرف میں استعمال ہو سکے تو اسے بنانا اور بیچنا جائز ہے بشر طیکہ یقین ہو کہ اس سے شراب نہیں بنائی جائے گی۔ شریعت کا یہ اصول ہے کہ جو چیز حرام ہے، اس کا کاروبار، خرید فروخت ، لین دین ہر چیز منع ہے، مثلاً: شراب، مردار، بت، خنزیر وغیرہ، البتہ جو چیز کسی پر حرام ہے، کسی کے لیے حلال تو اس کا کاروبار، خرید و فروخت، لین دین سب جائز ہے حتیٰ کہ جس شخص پر حرام ہے، وہ بھی اس کا لین دین کر سکتا ہے، جیسے سونا، ریشم وغیرہ۔ یہ مردوں کے لیے پہننا حرام ہے، رکھنا حرام نہیں، لہٰذا ان کا کاروبار اور لین دین مرد بھی کر سکتے ہیں۔ اس کا تحفہ بھی دیا جا سکتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4677
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4678
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4668
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت ابن وعلہ مصری سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے انگور کے نچوڑے ہوئے جوس کے بارے میں پوچھا تو حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اونٹ پر لدی ہوئی شراب کے دو مشکیزے بطور تحفہ پیش کیے۔ نبی اکرم ﷺ نے اسے فرمایا: ”تجھے علم نہیں کہ اللہ عزو جل نے شراب حرام فرما دی ہے؟“ اس نے اپنے پہلو (بیٹھے یا کھڑے ہوئے) ایک شخص سے آہستہ سے کچھ کہا اور جو کچھ اس نے کہا، اسے میں اس طرح نہیں سمجھ سکا جس طرح میں چاہتا تھا، لہٰذا میں نے (اس کی بابت حاضرین میں سے کسی سے) پوچھا۔ نبی اکرم ﷺ نے اس سے پوچھا: ”تو نے آہستہ سے اس کو کیا کہا ہے؟“ اس نے کہا: میں نے اسے شراب فروخت کرنے کو کہا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جس ذات نے شراب کو حرام قرار دیا ہے، اس نے اس کو بیچنا بھی حرام کیا ہے۔“ اس شخص نے دونوں مشکیزوں کے منہ کھول دیے حتیٰ کہ جو کچھ شراب اس میں تھی بہہ گئی۔
حدیث حاشیہ:
(1) شراب کی خرید و فروخت شرعی طور پر ناجائز اور حرام ہے۔ اس بات پر امت مسلمہ کا اجماع ہے۔ (2) معلوم ہوا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جو اس نے تحفتاً شراب پیش کی تھی، وہ سابقہ اباحت کی بنا پر ہی تھی۔ اسے اس کی حرمت کا علم نہیں تھا اسی لیے آپ ﷺ نے اس کا مؤاخذہ نہیں فرمایا۔ معلوم ہوا جو انسان کسی حرام کا ارتکاب کرے یا حرام چیز کو حلال سمجھتا ہو، اور اس حوالے سے اسے واقعی شرعی حکم معلوم نہ ہو تو اسے باخبر کرنا ضروری ہو گا۔ ایسی معصیت اور گناہ کے ارتکاب پر وہ قابل عتاب و عقاب بھی نہیں ہو گا۔ (3) یہ حدیث مبارکہ دلیل ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان سے اس بعض رازوں کی بابت پوچھ سکتا ہے۔ بعد ازاں اگر ان رازوں کو پوشیدہ رکھنا ضروری ہو تو پوشیدہ رکھے ورنہ انھیں ذکر اور ظاہر بھی کیا جا سکتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے جواب کا مطلب ہے کہ انگور کا جوس شراب بنانے کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے۔ اس کا کوئی اور مصرف نہیں، لہٰذا انگور کا جوس نکالنا اور شراب بنانے والوں کو بیچنا منع ہے، البتہ اگر وہ جوس کسی حلال مصرف میں استعمال ہو سکے تو اسے بنانا اور بیچنا جائز ہے بشر طیکہ یقین ہو کہ اس سے شراب نہیں بنائی جائے گی۔ شریعت کا یہ اصول ہے کہ جو چیز حرام ہے، اس کا کاروبار، خرید فروخت ، لین دین ہر چیز منع ہے، مثلاً: شراب، مردار، بت، خنزیر وغیرہ، البتہ جو چیز کسی پر حرام ہے، کسی کے لیے حلال تو اس کا کاروبار، خرید و فروخت، لین دین سب جائز ہے حتیٰ کہ جس شخص پر حرام ہے، وہ بھی اس کا لین دین کر سکتا ہے، جیسے سونا، ریشم وغیرہ۔ یہ مردوں کے لیے پہننا حرام ہے، رکھنا حرام نہیں، لہٰذا ان کا کاروبار اور لین دین مرد بھی کر سکتے ہیں۔ اس کا تحفہ بھی دیا جا سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابن وعلہ مصری سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن عباس ؓ سے انگور کے رس کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا: ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ کو شراب کی مشکیں تحفہ میں دیں تو آپ ﷺ نے اس سے فرمایا: ”کیا تمہیں علم ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے حرام قرار دیا ہے؟“ پھر اس نے کانا پھوسی کی- میں اس بات کو اچھی طرح نہیں سمجھ سکا تو میں نے اس کی بغل کے آدمی سے پوچھا تو نبی اکرم ﷺ نے اس سے کہا: ”تم نے اس سے کیا کانا پھوسی کی؟“، وہ بولا: میں نے اس سے کہا کہ وہ اسے بیچ دے، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جس ذات نے اس کا پینا حرام کیا ہے، اس نے اس کا بیچنا بھی حرام کیا ہے“، تو اس آدمی نے دونوں مشکوں کا منہ کھول دیا یہاں تک کہ جو کچھ اس میں تھا بہہ گیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn Wa'lah Misri that he asked Ibn 'Abbas about what is produced from grapes. Ibn'Abbas said: "A man gave the Messenger of Allah (ﷺ) a skin full of wine, and the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said to him;' did you know that Allah has forbidden it?' He whispered something and I did not understand what he whispered as I wanted to. I asked a person who was beside him and the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said to him; 'What are you whispering about?' He said: 'I told him to sell it.' The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: 'The One Who forbade drinking it also forbade selling it.' Then he opened the vessels and poured out their contents.