Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: No Retaliation Is To Be Carried Out If A Muslim Kills A Disbeliever)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4746.
اشتر نخعی سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا کہ لوگوں میں ایسی باتیں بہت پھیلی ہوئی ہیں جو وہ (ادھر ادھر سے) سنتے ہیں۔ اگر رسول اللہ ﷺ نے آپ کو کوئی خصوصی علم یا وصیت عطا فرمائی ہے تو ہمیں بیان فرمائیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے مجھے کوئی خصوصی علم یا وصیت نہیں فرمائی جو دوسرے لوگوں کو عطا نہ فرمائی ہو۔ البتہ میری تلوار کی میان میں ایک تحریر موجود ہے۔ دیکھا تو اس میں یہ لکھا تھا: ”تمام اہل ایمان کے خون برابر ہیں۔ ایک عام مسلمان بھی سب مسلمانوں کی طرف سے پناہ دے سکتا ہے۔ کسی مومن کو کسی کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جا سکتا اور نہ کسی ذمی کو اس کے ذمی ہوتے ہوئے قتل کیا جا سکتا ہے۔“ یہ روایت مختصر ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4759
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4760
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4750
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
اشتر نخعی سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا کہ لوگوں میں ایسی باتیں بہت پھیلی ہوئی ہیں جو وہ (ادھر ادھر سے) سنتے ہیں۔ اگر رسول اللہ ﷺ نے آپ کو کوئی خصوصی علم یا وصیت عطا فرمائی ہے تو ہمیں بیان فرمائیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے مجھے کوئی خصوصی علم یا وصیت نہیں فرمائی جو دوسرے لوگوں کو عطا نہ فرمائی ہو۔ البتہ میری تلوار کی میان میں ایک تحریر موجود ہے۔ دیکھا تو اس میں یہ لکھا تھا: ”تمام اہل ایمان کے خون برابر ہیں۔ ایک عام مسلمان بھی سب مسلمانوں کی طرف سے پناہ دے سکتا ہے۔ کسی مومن کو کسی کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جا سکتا اور نہ کسی ذمی کو اس کے ذمی ہوتے ہوئے قتل کیا جا سکتا ہے۔“ یہ روایت مختصر ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اشتر کہتے ہیں کہ انہوں نے علی ؓ سے کہا: لوگوں میں مشہور ہو رہی ہیں جو وہ سن رہے ہیں، لہٰذا اگر رسول اللہ ﷺ نے آپ سے کوئی بات کہی ہو تو اسے بیان کر دیجئیے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھے کوئی بات ایسی نہیں بتائی جو لوگوں کو نہ بتائی ہو، سوائے اس کے جو ایک صحیفہ میری تلوار کی نیام میں ہے، اس میں لکھا ہے: ”مومنوں کا خون برابر ہے، ان کا معمولی آدمی بھی کسی کا ذمہ لے سکتا ہے، کوئی مومن کسی کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا اور نہ کوئی ذمی جب تک وہ عہد پر قائم رہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrataed from Al-Ashtar that he said to 'Ali: "What the people have been hearing from you has become widespread. If the Messenger of Allah (ﷺ) told you anything, then tell us," He said: "The Messenger of Allah (ﷺ) did not tell me anything that he did not tell the people, except that in the sheath of my sword there is a sheet, in which it says: 'The lives of the believers are equal in value, and they hasten to support the asylum granted by the least of them. But no believer may be killed in return for a disbeliever, nor one with a covenant while his covenant is in effect."' It is an abridgement of it.