باب: دانت کاٹنے کے قصاص اور عمران بن حصین کی روایت میں ناقلین حدیث کے اختلافِ الفاظ کا بیان
)
Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: Retaliation For A Bite And Mentioning The Differences In The Report Of The Narrators Of The Narration Of 'Imran bin Husain Concerning That)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4760.
حضرت عمران بن حصین ؓ سے منقول ہے کہ حضرت یعلی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ایک آدمی سے جھگڑا ہوگیا تو ان میں سے ایک نے دوسرے کو دانت کاٹا۔ اس نے اس کے منہ سے اپنا ہاتھ کھینچا تو کاٹنے والے کا سامنے والا دانت گر گیا۔ وہ دونوں یہ جھگڑا رسول اللہ ﷺ کے پاس لے آئے تو آپ نے (غصے سے) فرمایا: ”کیا تم میں سے ایک آدمی اپنے بھائی کو اونٹ کی طرح چباتا ہے؟ جاؤ اس دانت کی کوئی دیت نہیں۔“
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4773
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4774
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4764
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت عمران بن حصین ؓ سے منقول ہے کہ حضرت یعلی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ایک آدمی سے جھگڑا ہوگیا تو ان میں سے ایک نے دوسرے کو دانت کاٹا۔ اس نے اس کے منہ سے اپنا ہاتھ کھینچا تو کاٹنے والے کا سامنے والا دانت گر گیا۔ وہ دونوں یہ جھگڑا رسول اللہ ﷺ کے پاس لے آئے تو آپ نے (غصے سے) فرمایا: ”کیا تم میں سے ایک آدمی اپنے بھائی کو اونٹ کی طرح چباتا ہے؟ جاؤ اس دانت کی کوئی دیت نہیں۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمران بن حصین ؓ کہتے ہیں کہ یعلیٰ ؓ کا ایک شخص سے جھگڑا ہو گیا ۱؎، ان میں سے ایک نے دوسرے کو دانت کاٹا، پھر ایک نے اپنا ہاتھ کھینچا تو دوسرے کا دانت نکل پڑا، وہ لوگ جھگڑا لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے، آپ نے فرمایا: ”تم میں سے ایک آدمی اونٹ کی طرح اپنے بھائی کے ہاتھ کو کاٹتا ہے (پھر دیت مانگتا ہے) اسے دیت نہیں ملے گی۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس روایت میں صراحت ہے کہ دانت کاٹنے والے یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ تھے اور جس کو دانت کاٹا تھا وہ ان کا مزدور تھا، چونکہ معاملہ خود یعلیٰ رضی اللہ عنہ کا تھا اس لیے اپنی روایتوں میں (جو آگے آ رہی ہیں) انہوں نے دانت کاٹنے والے کا نام مبہم کر دیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Imran bin Husain said: "Ya'la fought with a man, and one of them bit the other, who pulled his hand away from his mouth, and a front tooth fell out. They referred their dispute to the Messenger of Allah (ﷺ) and he said: 'Would one of you bite his brother as a stallion bites? There is no Diyah for that.