Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: One Who Is Killed With A Stone Or A Whip)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4789.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص اندھا دھند لڑائی جھگڑے (بلوے اور ہنگامے) میں مارا جائے جس میں پتھر، کوڑے یا لاٹھی کا عام استعمال ہوا تو اس کی دیت قتل خطا کی دیت ہوگی۔ اور جس شخص کو جان بوجھ کر قتل کیا جائے، اس کا قصاص لیا جائے گا۔ جو شخص قصاص میں رکاوٹ بنے، س پر اللہ تعالیٰ کی فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔ نہ اس کا فرض قبول نہ نفل۔“
تشریح:
(1) یہ حدیث مبارکہ قتل عمد (کسی کا کسی کو جان بوجھ کو قتل کرنا) کا بالکل صریح حکم بیان کرتی ہے کہ اس میں قصاص واجب ہے۔ ہاں اگر مقتول کے ورثاء دیت پر راضی ہو جائیں تو یہ درست ہوگا۔ اس صورت میں قاتل سے قصاص ساقط ہو جائے گا جیسا کہ دیگر احادیث میں اس کی صراحت ہے۔ (2) جو شخص اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود قائم کرنے میں حائل ہو اور کسی قسم کی رکاوٹ پیدا کرے تو وہ شخص، خواہ صدرِ مملکت ہی ہو، لعنتی ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی بھی لعنت ہے، نیز ایسے شخص کی کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی کیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسول سے کھلی جنگ ہے۔ مطلب یہ کہ ایسا کرنا حرام اور شرعاً ناجائز ہے۔ (3) اس حدیث میں ہنگامے اور بلوے کی صورت بیان کی گئی ہے کہ دونوں طرف ازدحام ہے۔ آپس میں لڑ رہے ہیں۔ کوئی پتھر چلا رہا ہے کوئی لکڑی۔ کوئی کوڑا مار رہا ہے، کوئی خالی ہاتھ۔ ایسے بلوے میں قاتل کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ ویسے بھی ایسی لڑائی کا مقصود کسی کو قتل کرنا نہیں ہوتا۔ بالفرض اگر کوئی مارا جائے تو اسے قتل خطا قرار دیا جائے گا اور فریق ثانی دیت بھرے گا۔ البتہ اگر ایسی لڑائی میں اسلحہ استعمال ہو لیکن قاتلین کا تعین نہ ہو تو فریق ثانی سے قتل عمد کی دیت وصول کی جائے گی کیونکہ اسلحہ چلانے سے مقصود قتل کرنا ہی ہوتا ہے اور اگر قاتل کا تعین ہو جائے تو قصاص لیا جائے گا۔ اسی طرح اگر ایک آدمی کا مقصد دوسرے کو قتل کرنا ہی ہے، پھر خواہ وہ تلوار استعمال کرے یا آتشیں اسلحہ یا پتھر یا لکڑی یا ہتھوڑا، ہر حال میں اس سے قصاص لیا جائے گا جیسا کہ اس حدیث میں الگ طور پر ذکر ہے۔ (4) ”فرض ونفل“ بعض نے صَرْفٌ کے معنیٰ توبہ اور عَدْلٌ کے معنیٰ فدیہ ومعاوضہ کیے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4802
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4803
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4793
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص اندھا دھند لڑائی جھگڑے (بلوے اور ہنگامے) میں مارا جائے جس میں پتھر، کوڑے یا لاٹھی کا عام استعمال ہوا تو اس کی دیت قتل خطا کی دیت ہوگی۔ اور جس شخص کو جان بوجھ کر قتل کیا جائے، اس کا قصاص لیا جائے گا۔ جو شخص قصاص میں رکاوٹ بنے، س پر اللہ تعالیٰ کی فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔ نہ اس کا فرض قبول نہ نفل۔“
حدیث حاشیہ:
(1) یہ حدیث مبارکہ قتل عمد (کسی کا کسی کو جان بوجھ کو قتل کرنا) کا بالکل صریح حکم بیان کرتی ہے کہ اس میں قصاص واجب ہے۔ ہاں اگر مقتول کے ورثاء دیت پر راضی ہو جائیں تو یہ درست ہوگا۔ اس صورت میں قاتل سے قصاص ساقط ہو جائے گا جیسا کہ دیگر احادیث میں اس کی صراحت ہے۔ (2) جو شخص اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود قائم کرنے میں حائل ہو اور کسی قسم کی رکاوٹ پیدا کرے تو وہ شخص، خواہ صدرِ مملکت ہی ہو، لعنتی ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی بھی لعنت ہے، نیز ایسے شخص کی کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی کیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسول سے کھلی جنگ ہے۔ مطلب یہ کہ ایسا کرنا حرام اور شرعاً ناجائز ہے۔ (3) اس حدیث میں ہنگامے اور بلوے کی صورت بیان کی گئی ہے کہ دونوں طرف ازدحام ہے۔ آپس میں لڑ رہے ہیں۔ کوئی پتھر چلا رہا ہے کوئی لکڑی۔ کوئی کوڑا مار رہا ہے، کوئی خالی ہاتھ۔ ایسے بلوے میں قاتل کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ ویسے بھی ایسی لڑائی کا مقصود کسی کو قتل کرنا نہیں ہوتا۔ بالفرض اگر کوئی مارا جائے تو اسے قتل خطا قرار دیا جائے گا اور فریق ثانی دیت بھرے گا۔ البتہ اگر ایسی لڑائی میں اسلحہ استعمال ہو لیکن قاتلین کا تعین نہ ہو تو فریق ثانی سے قتل عمد کی دیت وصول کی جائے گی کیونکہ اسلحہ چلانے سے مقصود قتل کرنا ہی ہوتا ہے اور اگر قاتل کا تعین ہو جائے تو قصاص لیا جائے گا۔ اسی طرح اگر ایک آدمی کا مقصد دوسرے کو قتل کرنا ہی ہے، پھر خواہ وہ تلوار استعمال کرے یا آتشیں اسلحہ یا پتھر یا لکڑی یا ہتھوڑا، ہر حال میں اس سے قصاص لیا جائے گا جیسا کہ اس حدیث میں الگ طور پر ذکر ہے۔ (4) ”فرض ونفل“ بعض نے صَرْفٌ کے معنیٰ توبہ اور عَدْلٌ کے معنیٰ فدیہ ومعاوضہ کیے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو کسی ہنگامے، یا بلوے اور فساد میں (جہاں قاتل معلوم نہ ہو سکے) کسی پتھر یا کوڑے یا ڈنڈے سے مارا جائے تو اس کی دیت وہی ہو گی جو قتل خطا کی ہے اور جس نے قصداً مارا تو اس پر قصاص ہو گا، جو کوئی قصاص اور قاتل کے درمیان حائل ہو تو اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، نہ اس کا فرض قبول ہو گا نہ نفل۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : قتل تلوار سے ہو یا ایسے ہتھیار سے جس سے قتل کیا جاتا ہے: اگر قتل کی نیت سے ہو تو قتل عمد (مقصد و ارادہ اور جان بوجھ کر قتل) ہے، اس میں قصاص ہے یا معاف کر دینے کی صورت میں دیت ہے، اور اگر قتل غلطی سے ہو خواہ کسی چیز سے بھی ہو تو اس میں دیت ہے، یہی حکم بندوق یا بم کا بھی ہو گا، فساد اور ہنگامے میں قتل خواہ کسی چیز سے ہو وہ ”غلطی سے قتل“ مانا جائے گا اور اس میں دیت ہو گی۔ جس کی تفصیل اس حدیث میں ہے اور یہی دیت مغلظہ ہے۔ اور فی زمانہ موجودہ سرکار مذکورہ دیت کی قیمت موجودہ بھاؤ سے لگا کر دیت مقرر کرے گی جیسا کہ سعودی عربیہ میں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn 'Abbas said: "The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'Whoever is killed in the blind or by something thrown, while between them is a rock, a wipe, or a stick, then the blood money of be paid for him is the blood money for accidental killing. Whoever kills deliberately, then retaliation is upon him, and whoever tries to prevent that, upon him is the curse of Allah, the Angels, and all the people, and neither Sarf nor Adl will be accepted from him.