باب: قتل شبہ عمد کا بیان اور اس کا کہ پیٹ کے بچے اور قتل شبہ عمد کی دیت کس کے ذمے ہوگی؟ نیز ابراہیم عن عبید بن نضیہ کے حضرت مغیرہ سے مروی روایت پر راویوں کے اختلافِ الفاظ کا ذکر
)
Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: The Description Of Killing That Resembles Intentional Killing, And Who Is To Pay The Diyah For A Fetus And For A Killing That Resembles Intentional Killing, And Mentioning The Different Wordings Reported In The Narration Of Ibrahim From 'Ubaid Bi)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4826.
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ بنو ہذیل کے ایک آدمی کی دو بیویاں تھیں۔ ایک نے دوسری کو خیمے کا ستون دے مارا اور اس کا حمل گرا دیا۔ (جب آپ نے بچے کی دیت بیان فرمائی تو) آپ سے کہا گیا: بتائیں تو بھلا جس بچے نے نہ پیا نہ کھایا، نہ چیخا نہ چلایا (کیا اس کی بھی دیت ہوگی؟) آپ نے فرمایا: ”یہ کیا اعرابیوں جیسی تک بندی ہے۔“ پھر آپ نے اس کی دیت غرہ، یعنی ایک غلام یا لوندی مقرر فرمائی اور اسے عورت کے نسبی رشتہ داروں کے ذمے ڈال دیا۔ اعمش نے اسے مرسل بیان کیا ہے۔
تشریح:
مذکورہ حدیث کو بہت سے محدثین نے مرفوع متصل بیان کیا ہے لیکن امام اعمش نے یہ روایت ابراہیم سے مرسل بیان کی ہے جیسا کہ آئندہ روایت میں ہے: الأعمش عن ابراھیم، قال ضَربت امراة…“
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4840
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4841
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4830
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ بنو ہذیل کے ایک آدمی کی دو بیویاں تھیں۔ ایک نے دوسری کو خیمے کا ستون دے مارا اور اس کا حمل گرا دیا۔ (جب آپ نے بچے کی دیت بیان فرمائی تو) آپ سے کہا گیا: بتائیں تو بھلا جس بچے نے نہ پیا نہ کھایا، نہ چیخا نہ چلایا (کیا اس کی بھی دیت ہوگی؟) آپ نے فرمایا: ”یہ کیا اعرابیوں جیسی تک بندی ہے۔“ پھر آپ نے اس کی دیت غرہ، یعنی ایک غلام یا لوندی مقرر فرمائی اور اسے عورت کے نسبی رشتہ داروں کے ذمے ڈال دیا۔ اعمش نے اسے مرسل بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
مذکورہ حدیث کو بہت سے محدثین نے مرفوع متصل بیان کیا ہے لیکن امام اعمش نے یہ روایت ابراہیم سے مرسل بیان کی ہے جیسا کہ آئندہ روایت میں ہے: الأعمش عن ابراھیم، قال ضَربت امراة…“
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مغیرہ بن شعبہ ؓ کہتے ہیں کہ ہذیل کے ایک شخص کی دو بیویاں تھیں، ان میں سے ایک نے دوسری کو خیمے کی لکڑی سے مارا، جس سے اس کا حمل ساقط ہو گیا، عرض کیا گیا: جس نے نہ کھایا، نہ پیا، جو نہ چیخا نہ چلایا، اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ نے فرمایا: ”یہ تو دیہاتیوں کی سی سجع ہے؟“ پھر آپ نے اس میں ایک «غرہ» یعنی ایک غلام یا ایک لونڈی دینے کا فیصلہ کیا، اور اس کی ذمہ داری (قاتل) عورت کے کنبے والوں پر ٹھہرائی۔ اعمش نے اسے مرسل روایت کیا ہے۔ (ان کی روایت آگے آ رہی ہے)
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated form Al-Mughirahbin shu'bah that: a man of Hudhail had two wives, and one of them threw a tent pole at the o0ther and caused her to miscarry. It was said: "What do you think of one who neither ate nor drank, or shouted nor cried (at the moment of birth)?" he said: (Rhyming verse like the verse of the Bedouins. "And the Messenger of Allah (ﷺ) ruled that a make or female slave shouted be given (as dihahj) for him (the unborn child), to be paid but the'Aqilah of the woman.