باب: قتل شبہ عمد کا بیان اور اس کا کہ پیٹ کے بچے اور قتل شبہ عمد کی دیت کس کے ذمے ہوگی؟ نیز ابراہیم عن عبید بن نضیہ کے حضرت مغیرہ سے مروی روایت پر راویوں کے اختلافِ الفاظ کا ذکر
)
Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: The Description Of Killing That Resembles Intentional Killing, And Who Is To Pay The Diyah For A Fetus And For A Killing That Resembles Intentional Killing, And Mentioning The Different Wordings Reported In The Narration Of Ibrahim From 'Ubaid Bi)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4829.
حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے یہ تحریر لکھوائی کہ ہر قبیلے کو اپنے لوگوں پر عائد شدہ دیتیں دینی ہوں گی، نیز کسی آزاد شدہ غلام کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے مولیٰ کی اجازت کے بغیر کسی اور مسلمان کو مولیٰ بنا لے۔
تشریح:
(1) عاقلہ (یعنی نسبی رشتہ دار) پر دیت ادا کرنا لازم ہے۔ (2)”عائد شدہ دیتیں“ یعنی قتل خطا اور شبہ عمد کی دیتیں قاتل کے خاندان کو بھرنا پڑیں گی۔ اور باب کا مقصد بھی یہی ہے کہ قتل خطا یا شبہ عمد کی دیت صرف قاتل کے ذمے نہیں بلکہ پورے خاندان کی ذمے داری ہے۔ (3) ”اجازت کے بغیر“ یہ قید ڈانٹ کے طور پر ہے ورنہ اجازت لے کر بھی کسی دوسرے کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا جیسے کوئی شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کو باپ نہیں بنا سکتا، خواہ باپ اجازت دے بھی دے۔ ویسے بھی کوئی سلیم الطبع شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کو باپ نہیں بنا سکتا، خواہ باپ اجازت دے بھی دے۔ ویسے بھی کوئی سلیم الطبع شخص نہ تو رشتہ بیچتا ہے، نہ ہبہ کرتا ہے کیونکہ رشتہ بیچنے اور ہبہ کرنے کی چیز نہیں۔ مولیٰ آزاد کردہ غلام کو بھی کہتے ہیں اور آزاد کرنے والے مالک کو بھی اور ان کے مابین تعلق کو ولا کہتے ہیں جو نسبی رشتے کے بعد مضبوط رشتہ ہے جو موت سے بھی ختم نہیں ہوتا حتیٰ کہ نسبی رشتہ دار نہ ہونے کی صورت میں وراثت بھی جاری ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کوئی شخص بھی ایسے معظم رشتے کو بدلنے کی اجازت نہیں دے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی بابت فرمایا: [الولاءُلُحمةٌ كلُحمةِ النَّسَبِ لا يُباعُ ولا يُوهَبُ] ”ولا بھی نسبی رشتہ داری کی طرح ہے، یہ نہ بیچی جا سکتی ہے اور نہ کسی کو ہبہ ہی کی جا سکتی ہے۔“(المستدرك للحاکم: ۴/ ۳۴۱) مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی اپنے آزاد کردہ غلام کو اجازت دے بھی دے تو بھی یہ تعلق ولا کسی دوسرے مسلمان کی طرف منتقل نہیں ہو سکتا۔ نہ کسی مسلمان کو لائق ہی ہے کہ وہ اسے قبول کرے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4843
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4844
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4833
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے یہ تحریر لکھوائی کہ ہر قبیلے کو اپنے لوگوں پر عائد شدہ دیتیں دینی ہوں گی، نیز کسی آزاد شدہ غلام کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے مولیٰ کی اجازت کے بغیر کسی اور مسلمان کو مولیٰ بنا لے۔
حدیث حاشیہ:
(1) عاقلہ (یعنی نسبی رشتہ دار) پر دیت ادا کرنا لازم ہے۔ (2)”عائد شدہ دیتیں“ یعنی قتل خطا اور شبہ عمد کی دیتیں قاتل کے خاندان کو بھرنا پڑیں گی۔ اور باب کا مقصد بھی یہی ہے کہ قتل خطا یا شبہ عمد کی دیت صرف قاتل کے ذمے نہیں بلکہ پورے خاندان کی ذمے داری ہے۔ (3) ”اجازت کے بغیر“ یہ قید ڈانٹ کے طور پر ہے ورنہ اجازت لے کر بھی کسی دوسرے کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا جیسے کوئی شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کو باپ نہیں بنا سکتا، خواہ باپ اجازت دے بھی دے۔ ویسے بھی کوئی سلیم الطبع شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کو باپ نہیں بنا سکتا، خواہ باپ اجازت دے بھی دے۔ ویسے بھی کوئی سلیم الطبع شخص نہ تو رشتہ بیچتا ہے، نہ ہبہ کرتا ہے کیونکہ رشتہ بیچنے اور ہبہ کرنے کی چیز نہیں۔ مولیٰ آزاد کردہ غلام کو بھی کہتے ہیں اور آزاد کرنے والے مالک کو بھی اور ان کے مابین تعلق کو ولا کہتے ہیں جو نسبی رشتے کے بعد مضبوط رشتہ ہے جو موت سے بھی ختم نہیں ہوتا حتیٰ کہ نسبی رشتہ دار نہ ہونے کی صورت میں وراثت بھی جاری ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کوئی شخص بھی ایسے معظم رشتے کو بدلنے کی اجازت نہیں دے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی بابت فرمایا: [الولاءُلُحمةٌ كلُحمةِ النَّسَبِ لا يُباعُ ولا يُوهَبُ] ”ولا بھی نسبی رشتہ داری کی طرح ہے، یہ نہ بیچی جا سکتی ہے اور نہ کسی کو ہبہ ہی کی جا سکتی ہے۔“(المستدرك للحاکم: ۴/ ۳۴۱) مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی اپنے آزاد کردہ غلام کو اجازت دے بھی دے تو بھی یہ تعلق ولا کسی دوسرے مسلمان کی طرف منتقل نہیں ہو سکتا۔ نہ کسی مسلمان کو لائق ہی ہے کہ وہ اسے قبول کرے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے لکھا: ہر قوم پر اس کی دیت ہے۔ اور کسی غلام کے لیے نہیں کہ وہ اپنے مالک کی اجازت کے بغیر کسی مسلمان کو اپنا ولاء دے۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی اسے اپنا مالک کہے اور اپنے کو اس کی طرف منسوب کرے، اور مرنے کے بعد اپنی ولاء کی وراثت اسی کے نام کر دے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jabir said: "The Messenger of Allah (ﷺ) ruled that every clan should take part in paying the blood money, and it is not permissible for a freed slave to take a Muslim (other than the one who freed him) as his Mawla (Patron) without the permission (of his former master who set him free)"