باب: کیا کسی شخص کو دوسرے کے جرم میں پکڑا جا سکتا ہے؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: Can Anyone Be Blamed For The sin Of Another?)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4832.
حضرت ابو رمثہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نبی اکرم ﷺ کے پاس اپنے والد کے ساتھ حاضر ہوا۔ آپ نے (میرے والد سے) فرمایا: ”یہ تیرے ساتھ کون ہے؟“ انھوں نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں، یہ میرا بیٹا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”خبردار! تیرے جرم کا یہ ذمہ دار نہیں اور تو اس کے جرم کا ذمہ دار نہیں۔“
تشریح:
(1) نبی ﷺ اس بات کا ہمیشہ التزام فرماتے کہ موقع محل کی مناسبت سے مسئلہ بیان فرمائیں اور کتاب وسنت کے احکام وضاحت سے بیان کر دیں، نیز نبی ﷺ مسئلہ اس انداز سے واضح فرماتے کہ اس میں کسی قسم کا ابہام باقی نہ رہتا بلکہ ہر شخص بآسانی سمجھ لیتا تھا۔ (2) یہ حدیث مبارکہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر کرتی ہے: ﴿وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى﴾(الفاطر: ۳۵: ۱۸)”کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا (قطعاً) کوئی بوجھ نہیں اٹھائے گا۔“ (3) جاہلیت میں باپ بیٹا تو ایک طرف پورے قبیلے کے افراد کو ایک دوسرے کے جرائم کا ذمہ دار سمجھا جاتا تھا۔ قبیلے کے کسی شخص نے قتل کیا ہوتا تو قبیلے کے کسی بھی شخص کو پکڑ کر قتل کر دیا جاتا اور دعویٰ کیا جاتا کہ ہم نے قصاص لے لیا ہے۔ اسلام نے اس بد رسم کو نہ صرف ختم کیا بلکہ یہ اعلان کیا کہ گناہ گار وہی ہے جس نے جرم کیا۔ سزا بھی اسے ہی دی جا سکتی ہے، کسی اور کو نہیں۔ باقی رہی یہ بات کہ پھر قتل خطا وشبہ عمد کی دیت رشتہ داروں پر کیوں پڑتی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ دراصل یہ اس کے ساتھ تعاون ہے کیونکہ قتل خطا کی صورت میں تو قاتل بالکل ہی بے گناہ ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ بے احتیاطی کا مجرم کہا جا سکتا ہے اور شبہ عمد میں مجرم تو ہوتا ہے کہ اس نے لڑائی کی مگر چونکہ قتل کا تو اسے تصور بھی نہیں تھا، لہٰذا وہ اتنا مجرم نہیں ہوتا کہ اس پر سو قیمتی اونٹنیوں کا بوجھ ڈال دیا جائے لیکن چونکہ کسی مسلمان کا خون رائیگاں نہیں جا سکتا، اس لیے دیت اس پر ڈال دی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے رشتہ داروں کو اس سے تعاون کرنے کا قانونی طور پر پابند بنا دیا گیا تاکہ وہ پاؤں نہ کھینچ سکیں۔ البتہ جب قاتل مکمل قصور وار ہو، مثلاً: قتل عمد میں تو اسے خود ہی قصاص دینا ہوگا۔ اس کے کسی بھائی یا باپ کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ دیت ہو تو وہ بھی خود ہی بھرے گا۔
الحکم التفصیلی:
وقلت : وإياد بن لقيط ثقة دون خلاف فالاسناد صحيح . الثانية : عن ثابت بن منقذ عن أبي رمثة به . أخرجه عبد الله بن أحمد في زوائد ( المسند ) ( 2 / 227 ) : حدثني شيبان ابن أبي شيبة ثنا زيد يعنى ابن إبراهيم . التستري ثنا صدقة بن أبي عمران عن رجل هو ثابت بن منقذ . قلت : ورجاله موثقون رجال الصحيح غير ثابت بن منقذ وليس بمشهور كما قال الحسينى وتبعه الحافظ في ( التعجيل ) . وشيبان هو ابن فروخ أبو شيبة الحبطي . وزيد كذا الأصل والصواب يزيد بن ابراهيم التستري . 2 - حديث عمرو بن الأحوص يرويه سليمان بن عمرو بن الأحوص أنه
قال سمعت رسول الله ( صلى الله عليه وسلم ) يقول في حجة الوداع ( . . . ألا لا يجنى جان الا على نفسه ألا لا يجني جان على ولده ولا مولود على والده . . . ) . أخرجه الترمذي ( 2 / 24 و 183 ) وابن ماجه ( 2669 و 3055 ) والبيهقي وأحمد ( 3 / 499 ) وقال الترمذي : . ( حديث حسن صحيح ) . 3 - حديث ثعلبة بن زهدم . يرويه الأشعث بن سليم عن أبيه عن رجل من بنى ثعلبة بن يربوع قال : ( أتيت النبي في صلى الله عليه وسلم وهو يتكلم فقال رجل : يا رسول الله هؤلاء بنو ثعلبة ابن يربوع الذين أصابوا فلانا فقال رسول اللة صلى الله عليه وسلم : لا يعنى لا تجنى نفس على نفس ) . هكذا أخرجه أحمد ( 3 / 64 - 65 و 5 / 377 ) والنسائي عن طريق أبى عوانة عن الأشعث به . والأشعث هذا هو ابن أبي الشعثاء وهو ثقة وقد اختلف عليه في إسناده فرواه أبو عوانة عنه كما ذكرنا وتابعه أبو الأحوص عن أشعث به . رواه النسائي . ورواه سفيان - وهو الثوري - عن أشعث بن أبي الشعثاء عن الأسود ابن هلال عن ثعلبة بن زهدم اليربوعي قال : فذكره نحوه . أخرجه النسائي أيضا والبيهقي ( 8 / 345 ) وتابعه شعبة عن الأشعث به إلا أنه قال : ( عن رجل من بني ثعلبة بن يربوع له لم يسمه . أخرجه النسائي والبيهقي ( 8 / 27 ) . قلت : والأسانيد إلى أبي الشعثاء صحيحة فالظاهر أن له فيه إسنادين فتارة يرويه عن أ بيه عن الرجل الثعلبي وتارة عن الأسود بن هلال
عنه . وكله صحيح . والله أعلم . والرجل سماه سفيان ثعلبة بن زهدم فإن كان محفوظا فذاك وإلا فجهالة الصحابي لا تضر كما هو معلوم . 4 - حديث طارق المحاربي . يرويه جامع بن شداد عنه به مثل حديث ثعلبة . أخرجه النسائي وابن ماجه ( 267 0 ) والحاكم ( 2 / 611 - 612 ) وقال : ( صحيح الاسناد ) . ووافقه الذهبي . قلت : وإسناده جيد . 5 - حديث الخشخاش العنبري . يرويه حصين بن أبي الحر عنه مثل حديث أبى رمثة مختصرا . أخرجة ابن ماجه ( 2671 ) وأحمد ( 4 / 344 - 345 ) وهذا سياقه : ثنا هشيم أنا يونس بن عبيد - عن حصين بن أبي الحر . قلت : وهذا سند صحيح رجاله رجال الشيخين غير الحصين وهو ثقة . 6 - حديث أسامة بن شريك يرويه زياد بن علاقة عنه مرفوعا مختصرا بلفظ : ( لاتجنى نفس على أخرى ) . أخرجه ابن ماجه ( 2672 ) . قلت : وإسناده حسن . 7 - حديث لقيط بن عامر يرويه دلهم بن الأسود بن عبد الله بن حاجب بن عامر بن المنتفق العقيلي عن أبيه عن عمه لقيط بن عامر . قال عامر : وحدثنيه أبو الأسود عن عاصم بن لقيط أن لقيطا خرج وافدا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم . . . فذكر الحديث بطوله وفيه :
( . . . ولا يجني عليك إلا نفسك ) . أخرجه أحمد ! 4 / 13 - 14 ) . وإسناده لا بأس به في الشواهد
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4846
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4847
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4836
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت ابو رمثہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نبی اکرم ﷺ کے پاس اپنے والد کے ساتھ حاضر ہوا۔ آپ نے (میرے والد سے) فرمایا: ”یہ تیرے ساتھ کون ہے؟“ انھوں نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں، یہ میرا بیٹا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”خبردار! تیرے جرم کا یہ ذمہ دار نہیں اور تو اس کے جرم کا ذمہ دار نہیں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) نبی ﷺ اس بات کا ہمیشہ التزام فرماتے کہ موقع محل کی مناسبت سے مسئلہ بیان فرمائیں اور کتاب وسنت کے احکام وضاحت سے بیان کر دیں، نیز نبی ﷺ مسئلہ اس انداز سے واضح فرماتے کہ اس میں کسی قسم کا ابہام باقی نہ رہتا بلکہ ہر شخص بآسانی سمجھ لیتا تھا۔ (2) یہ حدیث مبارکہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر کرتی ہے: ﴿وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى﴾(الفاطر: ۳۵: ۱۸)”کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا (قطعاً) کوئی بوجھ نہیں اٹھائے گا۔“ (3) جاہلیت میں باپ بیٹا تو ایک طرف پورے قبیلے کے افراد کو ایک دوسرے کے جرائم کا ذمہ دار سمجھا جاتا تھا۔ قبیلے کے کسی شخص نے قتل کیا ہوتا تو قبیلے کے کسی بھی شخص کو پکڑ کر قتل کر دیا جاتا اور دعویٰ کیا جاتا کہ ہم نے قصاص لے لیا ہے۔ اسلام نے اس بد رسم کو نہ صرف ختم کیا بلکہ یہ اعلان کیا کہ گناہ گار وہی ہے جس نے جرم کیا۔ سزا بھی اسے ہی دی جا سکتی ہے، کسی اور کو نہیں۔ باقی رہی یہ بات کہ پھر قتل خطا وشبہ عمد کی دیت رشتہ داروں پر کیوں پڑتی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ دراصل یہ اس کے ساتھ تعاون ہے کیونکہ قتل خطا کی صورت میں تو قاتل بالکل ہی بے گناہ ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ بے احتیاطی کا مجرم کہا جا سکتا ہے اور شبہ عمد میں مجرم تو ہوتا ہے کہ اس نے لڑائی کی مگر چونکہ قتل کا تو اسے تصور بھی نہیں تھا، لہٰذا وہ اتنا مجرم نہیں ہوتا کہ اس پر سو قیمتی اونٹنیوں کا بوجھ ڈال دیا جائے لیکن چونکہ کسی مسلمان کا خون رائیگاں نہیں جا سکتا، اس لیے دیت اس پر ڈال دی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے رشتہ داروں کو اس سے تعاون کرنے کا قانونی طور پر پابند بنا دیا گیا تاکہ وہ پاؤں نہ کھینچ سکیں۔ البتہ جب قاتل مکمل قصور وار ہو، مثلاً: قتل عمد میں تو اسے خود ہی قصاص دینا ہوگا۔ اس کے کسی بھائی یا باپ کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ دیت ہو تو وہ بھی خود ہی بھرے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابورمثہ ؓ کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، تو آپ نے فرمایا: ”یہ تمہارے ساتھ کون ہے؟“ اس نے کہا: یہ میرا بیٹا ہے، میں اس کی گواہی دیتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمہارا قصور اس پر نہیں اور اس کا قصور تم پر نہیں۔“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی تم دونوں میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کے جرم میں ماخوذ نہیں کیا جائے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Rimthah said; "I came to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) with my father and he said: 'Who is this with you?' He said:' my son, I bear witness (that he is my son). He said: 'You cannot be affected by his sin or he by yours.