Sunan-nasai:
The Book of Cutting off the Hand of the Thief
(Chapter: Mentioning the Differences Reported from Az-Zuhri)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4914.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک چوتھائی دینار چوری کرنے پر ہاتھ کاٹا ہے۔
تشریح:
دیکھیے حدیث: ۴۹۱۱
الحکم التفصیلی:
قلت : و كل صحيح , و لا منافاة , لأن الموقوف فى حكم المرفوع لأنه لا
يقال بمجرد الرأى , لاسيما و قد ورد عن عائشة من غير طريق عمرة , فقد تابعها
عروة عن عائشة مرفوعا باللفظ الثانى .
أخرجه مسلم و النسائى و الطحاوى قرنوه مع عمرة .
و هو عند البخارى و مسلم من طريق أخرى عن هشام بن عروة عن أبيه عنها قالت :
" لم تقطع يد سارق فى عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فى أقل من ثمن المحجن
جحفة أو ترس , و كلاهما ذو ثمن " .
و تابعها أبو بكر بن حزم عن عائشة مرفوعا به .
أخرجه أحمد ( 6/104 ) من طريق أبى سعيد حدثنا عبد الله بن جعفر قال : حدثنا
يزيد بن عبد الله عن أبى بكر بن حزم .
قلت : و هذا إسناد صحيح على شرط مسلم إن كان أبو بكر و هو ابن محمد
ابن عمرو بن حزم سمعه من عائشة , بل الظاهر أن بينهما عمرة , فقد أخرج أحمد
أيضا ( 6/80 ) و كذا البيهقى ( 8/255 ) من طريق محمد بن راشد عن يحيى بن يحيى
الغسانى قال : قدمت المدينة , فلقيت أبا بكر بن محمد بن عمرو بن حزم و هو عامل
على المدينة قال : " أتيت بسارق فأرسلت إلى خالتى عمرة بنت عبد الرحمن أن لا
تعجل فى أمر هذا الرجل حتى آتيك فأخبرك ما سمعت من عائشة فى أمر السارق , قال
: فأتنى , و أخبرتنى أنها سمعت عائشة تقول : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم
: " اقطعوا فى ربع الدنيار , و لا تقطعوا فيما هو أدنى من ذلك , و كان ربع
الدينار يومئذ ثلاثة دراهم , و الدينار أثنى عشر درهما , قال : و كانت سرقته
دون الربع فلم أقطعه " .
لكن محمد بن راشد هذا و هو المكحولى فيه ضعف من قبل حفظه , ثم رأيت الحديث عند
الدارقطنى ( 367 ـ 368 ) من طريق خالد بن مخلد أخبرنا عبد الله بن جعفر بن
عبد الرحمن بن المسود عن يزيد بن الهاد عن أبى بكر بن حزم عن عروة عن عائشة به
مرفوعا نحوه . فزاد فى السند " عروة " <1> . فهو الصحيح . و بذلك اتصل السند
و صح .
ثم إن للحديث شاهدا من حديث ابن عمر : " أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قطع
سارقا فى مجن قيمته ثلاثة دراهم " .
أخرجه الشيخان و غيرهما و سيأتى بعد تسعة أحاديث .
[1] و أخرجه الطحاوى ( 2/95 ) من طريق أبى عامر عن عبد الله بن جعفر و من طريق
محمد بن إسحاق عن أبى بكر عن عمرة به , و كذا عن طريق عبد العزيز بن أبى حازم
عن ابن الهاد به .
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4928
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4929
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4918
تمہید کتاب
چوری انتہائی قبیح عمل ہے جس کی کوئی مذہب بھی اجازت نہیں دیتا بلکہ دنیا کے ہر مذہب میں یہ قابل سزا عمل ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ آج کل کے یورپی قوانین ( جو یورپ کے علاوہ ان ممالک میں رائج ہیں جہاں ان کی حکومت رہی ہے ) میں اس کی سزا قید اور جرمانہ ہے ۔ اور شریعت اسلامیہ میں اس کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے ۔ آج کل کے ’’ روشن خیال ‘‘ حضرات ہاتھ کاٹنے کی سزا کو وحشیانہ اور ظالمانہ کہتے ہیں کہ اس طرح معاشرے میں معذور افراد زیادہ ہوں گے اور وہ معاشرے اور حکومت کے لیے بوجھ بن جائیں گے ، حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ یہ ایسی سزا ہے جو چوری کو معاشرے سے تقریبا کالعدم کردے گی ۔صرف چند ہاتھ کاٹنے سے اگر معاشرہ چوری سے پاک ہو جائے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ۔ ان چند افراد کا بوجھ حکومت یا معاشرے کے لیے اٹھانا ان کروڑوں اربوں کے اخراجات سے بہت ہلکا ہے جو پولیس اور جیلوں پر خرچ کرنے پڑتے ہیں جب کہ جیلوں میں چھوٹے چور بڑے چور بنتے ہیں ۔ وہاں جرائم پیشہ افراد اکھٹے ہو جاتے ہیں جس سے جرائم کے منصوبے بنتے ہیں ۔ یہ سمجھنا کہ اسلامی سزا کے نفاذ سے ’’ ہتھ کٹے ‘‘ افراد کی کثرت ہوتی ہے ، جہالت ہے ۔ چند ہاتھ کٹنے سے چوری ختم ہو جائے گی ۔ پولیس اور عدالتوں کی توسیع کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ شہر میں ایک آدھ ’’ ہتھ کٹا ‘‘ فرد سارے شہر کے لیے عبرت بنا رہے گا ۔ اس سے کہیں زیادہ افراد کے ہاتھ حادثات میں کٹ جاتے ہیں لہذا یہ صرف پروپیگنڈا ہے کہ اس سزا سے ’’ ہتھ کٹوں ‘‘ کا سیلاب آجائے گا ۔سعودی عرب جہاں اسلامی سزائیں سختی سے نافذ ہیں ، اس حقیقت کی زندہ مثال ہے ۔ وہاں کوئی فرد ہتھ کٹا نظر نہیں آتا مگر چوری کا تصور تقریبا ختم ہو چکا ہے ۔ کروڑوں کی مالیت کا سامان بغیر کسی محافظ کے پڑا رہتا ہے اور لوگ دکانیں کھلی چھوڑ کر نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں ۔ زیورات سے لدی پھندی عورتیں صحراوں میں ہزاروں میلوں کا سفر کرتی ہیں مگر کسی کو نظر بد کی بھی جرات نہیں ہوتی حالانکہ اسلامی سزا کے نفاذ سے قبل دن دہاڑے قافلے لوٹ لیے جاتے تھے ۔ اور لوگ حاجیوں کی موجودگی میں ان کا سامان اٹھا کر بھاگ جایا کرتے تھے جیسا کہ آج کل امریکہ وغیرہ میں حال ہے ، باوجود اس کے کہ وہاں جیلیں بھری پڑی ہیں مگر چوری ، ڈاکے روز روز بڑھ رہے ہیں۔اسلام نے چوری کی یہ سزا اس لیے رکھی ہے کہ چوری بڑھتے بڑھتے ڈاکا ڈالنے کی عادت ڈالتی ہے ۔ڈاکے میں بے دریغ قتل کیے جاتے ہیں اور جبرا عصمتیں لوٹی جاتی ہیں ۔ گویا چور آہستہ آہستہ ڈاکو ، قاتل اور زنا بالجر کا مرتکب بن جاتا ہے ، لہذا ابتدا ہی میں اس کا ایک ہاتھ کاٹ دیا جائے تاکہ وہ خود بھی پہلے قدم پر ہی رک جائے بلکہ واپس پلٹ جائے اور معاشرہ بھی ڈاکوؤں ، بے گنا ہ قتل اور زنا بالجر جیسے خوف ناک اور قبیح جرائم سے محفوظ رہ سکے ۔ بتائیے ! اس سزا سے چور اور معاشرے کو فائدہ حاصل ہوا یا نقصان ؟ جب کہ قید اور جرمانے کی سزا ان جرائم میں مزید اضافے کا ذریعہ بنتی ہے ۔ پہلی چوری کا جرمانہ اس سے بڑی چوری کے ذریعے سے ادا کیا جاتا ہے اور جیل جرائم کی تربیت گاہ ثابت ہوتی ہے ۔جرائم تبھی ختم ہوں گے جب ان پر کڑی اور بے لاگ اسلامی سزائیں نافذ کی جائیں گی کیونکہ وہ فطرت کے عین مطابق ہیں ۔